راسکوہ کا ماتم اور حیربیارمری کی آگاہی مہم ۔۔۔ حفیظ حسن آبادی
حفیظ حسن آبادی
گذشتہ کئی برسوں سے جاری روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال بھی بلوچ
رہنما واجہ حیربیار مری کی طرف سے بلوچستان میں کئے گئے پاکستانی ایٹمی
دھماکوں کے خلاف آگاہی مہم چلایا گیا جسے ہرلحاظ سے کامیاب کہا جاسکتا ہے ۔اس سال
پہلے برسوں کی نسبت احتجاجی مظاہروں کا دائرہ وسیع اور سوشل میڈیا سےبہتر انداز سے
استفادہ کیا گیا ۔ہزاروں پوسٹ ٹیوٹر فیس بک و دیگر زرائع ابلاغ پر آئے برطانیہ ،
سویڈن ،کینیڈا،جرمنی کے علاوہ بلوچستان میں بھی مظاہرے کئے گئے ان مظاہروں کی توسط
سے نہ صرف اس ا نسان کُش ایٹمی دھماکے کے نقصانات کی یاد دہانی کرائی گئی
بلکہ بلوچ قوم کے المیہ کو بھی بہتر انداز میں اُجاگر کیا گیا۔اس دؤراں
جب یہ مہم چل رہی تھی تو پاکستانی ارباب اختیار کی طرف سے بلوچ آزادی
پسند رہنماؤں خاص کر واجہ مری کے خلاف زہرافشانی کا ایک سلسلہ شروع کیا
گیاچیف آف آرمی اسٹاف اوروفاقی وزیر داخلہ کے حوالے سےایسے بیانات وقفے وقفے سے
آتے رہے کہ پاکستان نے برطانوی حکام کو اپنے مطلوبہ لوگوں کی ایک فہرست پیش
کی ہے اورعمران فارق کے قاتلوں کے بدلے حیر بیار مری اور دیگر بلوچ رہنماؤں کو
پاکستان کے سپرد کرنے کا کام بہت جلداپنے انجام کو پہنچنے کوہے ۔پاکستانی میڈیا نے
ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے آج نہیں تو کل بلوچ رہنما پاکستانی بے انصاف
عدالتوں کے سامنے پیش ہوں گےاور پاکستان اُنھیں وہ عبرتناک سزا دے گی کہ بارثانی
کوئی بلوچ اس قبضہ گیریت کے سامنے سر اُٹھانے کی جرات نہ کرے ۔بعض
اخبارات اس حد غلط بیانی پر اُتر آئے اور لکھا کہ بلوچ رہنما پاکستانی دباؤ سے
گھبرا کر یورپ میں روپوش ہوگئے ہیں مگر بلوچ رہنما نے کسی بھی دباؤ کو خاطر میں
لائے بغیر نہ صرف اس طویل آگاہی مہم کوکامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ لندن میں
خوداپنے رفیقوں کی شاندار قیادت بھی کی۔
یہ مہم جو تقریباً چالیس دن تک جاری رہی اگر اسمیں کہیں کسی
کمی یاکوتائی کا احساس ہوتا ہے تو اُس کے زمہ دار بلوچ کے نام پر سیاست کرنے
والے وہ سیاسی قوتیں ہیں جو ابھی تک اپنے اَنا کی قید سے رہائی نہیں پا سکے ہیں
۔اور اس اجتماعی قومی المیہ اور اس سے جڑے مصیبتوں کواُس طرح پیش کرنے کی
اہمیت کا ادراک نہیں رکھتے جس اہمیت کا یہ متقاضی ہے۔
اِسی دکھ کو محسوس کرتے ہوئے اٹھائیس مئی کو بجاطور پر بلوچ
رہنماواجہ مری نے اپنے مختصر بیان میں ایک بار پھر اس بات کی ضرورت پر
زور دیا کہ مضبوط دشمن کے خلاف تنہائی میں جنگ نہیں لڑی جاسکتی ۔بظاہر یہ ایک عام
روائتی جملہ ہے مگر حقیقت میں اس کے پیچھے ایک گہری تشویش اپنے شدت کے ساتھ موجود
ہے کیونکہ یورپی ممالک کینیڈا،امریکہ آسٹریلیا وغیرہ میں بلوچوں کی ایک
اچھی خاصی تعداد موجود ہے مگر گروہی اور پارٹی بازی کی سوچ مانع ہے جووہ ایسے
اہم مظاہروں میں اپنی شرکت یقینی نہیں بنا سکتے جس سے جودکھ درد بلوچ قوم سہہ رہی
اور جس طرح بلوچستان سلگ رہا ہےاس شدت سے اُس کیلئے فریاد بلند نہیں ہو
پارہی ہے۔نہیں تو اس اہم اور اجتماعی المیہ کے کرب دلفگارکو دنیا کو
بہتر انداز میں بتانے پارٹی سیاست سے بلند ہوکر مشترکہ اجتماعات و مظاہروں کا بھی
اہتمام کیا جاسکتا تھامگر متاسفانہ ایسا ممکن نہ ہوسکا ۔
جب ہمارے دوست شکوہ کرتے ہیں کہ دنیا ہمیں بجا توجہ نہیں دے رہی تو
پہلے ہم اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہم خود اپنی نسل کشی روکنے اور اس درد
کوبیان کرنےکس حد تک سنجیدہ اور مخلص ہیں؟۔
اس مایوس کن نوٹ کے باوجودجو چیز حوصلہ افزاء رہی وہ یہ کہ مری
اورآپ کے سیاسی رفقاءنے کسی کی پرواہ اور انتظار کئے بغیر اس مہم کو بخیر و خوبی
انجام کو پہنچایا مگر آئندہ کیلئے اُمید کی جاتی ہے بلوچ آزاد ریاست کے طلبگار
اور ریاستی بربریت کی شکار قوتیں ایسے ایام کو مشترکہ طور پر منانے کا ایک ایسا
میکانیزم بنانے کی طرف پیش رفت کریں گے جو بلوچ کے قومی المیہ کو دنیا کے
سامنےپیش کرنے میں موثر ہو۔(ختم شُد )۔
Comments
Post a Comment