Skip to main content

Urdu Section




تباہ کن انتقام
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی

جن یورپی آبادکاروں نے مینیسوٹا پر قبضہ کیا، وہ زمین کے حقیقی مالک کیخلاف اپنے جرائم کے دفاع میں انتہائی حد تک بے رحم، سنگدل اور سفاک تھے
ہر سال، 2005ءکے بعد سے، کچھ جیالے ڈکوٹا دیسی امریکی موسم سرما کی نقطہءانجماد والی سردی میں ، 1862ءمیں انصاف کی مسخ شدگی کی یاد کو پھر سے زندہ کرنے کیلئے، گھوڑے کی پیٹھ پر 300 میل کا ایک طویل سفر طے کرتے ہیں، جب ان کے اجداد میں سے 38 کو منکاٹو میں پھانسیاں دی گئیں، جو کہ امریکی تاریخ میں سب سے بڑی اجتماعی پھانسیاں تھیں۔ اسکی ڈیڑھ سو سالہ سالگرہ کو منانے کیلئے، اس سال کی سواری کرو کریک، یہ وہ ریزرویشن (تخصیص شدہ جگہ) ہے جہاں ڈکوٹا کو مینیسوٹا سے جلاوطن کرنے کے بعد آبا د کیا گیا تھا، جنوبی ڈکوٹا سے 10 دسمبر کو شروع ہوئی، یہ سواری 26 دسمبر کو منکاٹو میں اختتام پذیر ہوئی۔ ان پھانسیوں کے بعد 303 سیو دیسی امریکیوں کو کینگرو عدالت سے سزا سنائی گئی۔ ان ہزاروں لوگوں میں سے جنہوں نے 1862ء کی ڈکوٹا جنگ، جسے سیو بغاوت یا کہ لٹل کرو جنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، میں شکست کے بعد ہتھیار ڈال دیئے تھے، بعض کے مقدمات کی سماعتیں پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں ختم ہوئیں۔ اس سرعام اجتماعی پھانسی پر عملدرآمد ایک ہی پھانسی کے تختے پر کیا گیا تھا اور مُردوں کو اجتماعی طور پر ایک بڑی کھائی میں دفنایا گیا، جسے رات کو دوبارہ کھول کر لاشیں ڈاکٹروں میں تقسیم کردی گئیں۔ جب مینیسوٹا 11 مئی، 1858ء کو ایک ریاست بن گیا، تو ڈکوٹا دیسی امریکیوں کے جتھوں کے نمائندے، جنکی قیادت لٹل کرو کر رہے تھے، سیو سردار معاہدوں پر عمل درآمد کی خاطر مذاکرات کیلئے واشنگٹن ڈی سی گئے۔ بجائے اس کے، مینیسوٹا دریا کے ساتھ والا شمالی نصف ہتھیا لیا گیا اور پائپ اسٹون کی کُھدان کے حقوق بھی چھین لیے گئے۔ دیسی امریکیوں کی زمین آبادکاری کیلئے بستیوں اور پلاٹوں کے درمیان تقسیم کی گئی۔ اس سے ارد گرد کے جنگلات اور مرغزاروں سے کندہ کاری اور زراعت کا خاتمہ کیا گیا اور اس سے ڈکوٹاوں کی کاشتکاری، شکار، ماہی گیری اور جنگلی چاول جمع کرنے کی سالانہ عرصہءتکمیل میں خلل پیدا ہوا۔ آبادکاروں کے بلاروک شکار نے ارنا بھینسوں، ایلک، وہائٹ ٹیل ہرن اور ریچھ کی تعداد کو ڈرامائی انداز میں کم کردیا اور ڈکوٹا لوگوں کو گوشت کی فراہمی میں کمی واقع ہوئی اور انکے پوستین کی فروخت بھی کم ہوگئی۔ ڈکوٹا دیسی امریکی اپنی زمین کے چھن جانے، سالانہ وظیفوں کی عدم ادائیگی، ماضی کے ٹوٹے ہوئے معاہدوں، غذائی قلت اور فصل کی ناکامی کے سبب قحط زدہ ہوئے، اور اس ضیاع پر ان میں تیزی سے عدم اطمنان بڑھ گیا۔
دیسی امریکیوں کا ایجنٹ اور مینیسوٹا اسٹیٹ کے سینیٹر تھامس گالبریتھ، جو اس علاقے کا انتظام چلاتا تھا، اس نے رقم کی ادائیگی کے بغیر خوراک کی تقسیم سے انکار کر دیا۔ ڈکوٹا، امریکی حکومت اور مقامی تاجروں کے ایک اجلاس میں ڈکوٹا کے نمائندوں نے حکومتی تاجروں کے نمائندے اینڈریو جیکسن مائرک سے کہا کہ انہیں ادھار پر خوراک فروخت کیا جائے۔ ان کا جواب تھا، ”جہاں تک میرا سوال ہے، اگر وہ بھوکے ہیں تو انہیں گھاس یا ان کو اپنا گوبر کھانے دو۔“
بڑھتی ہوئی نا انصافیاں مینیسوٹا کے حقیقی مالکان یعنی ڈکوٹا سیو اور یورپی نوآبادکاروں کے درمیان جنگ پر منتج ہوئی۔ 17 اگست، 1862ء کو، ایک نوجوان ڈکوٹا دیسی امریکی نے تین دیگر کیساتھ ملکرپانچ آبادکاروں کو ہلاک کر دیا۔ اس رات ڈکوٹا کے ایک کونسل نے مینیسوٹا دریا کی وادی بھر میں بستیوں سے سفید فاموں کو علاقے سے نکالنے کی کوشش میں حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 18 اگست، 1862ء کو لٹل کرو کی زیر قیادت گروہ نے زیریں سیو ایجنسی پر حملہ کیا جہاں سب سے پہلے ہلاک شدگان میں اینڈریو مائرک بھی شامل تھا۔ بعد میں اس کی لاش ملی، اس کے منہ میں گھاس بھری گئی تھی۔ ابتدائی طور پر ڈکوٹاوں کے حملوں نے کامیابی حاصل کی لیکن ایک بڑی فوج کی آمد کیساتھ پانسہ پلٹ گیا اور بڑے پیمانے کی حتمی لڑائی 23 ستمبر، 1862ء کو وُڈلیک کی لڑائی تھی۔ ڈکوٹاوں کو جامع شکست ہوئی اور زیادہ تر جنگجووں نے ہتھیار ڈال دیے تھے اور انہیں نومبر 1862ء میں منعقدہ فوجی مقدمات کی سماعتوں تک قید میں رکھا گیا۔ 1600 ڈکوٹا خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو فورٹ اسنیلنگ کے قریب پائیک جزائر پر واقع جنگی قیدیوں ایک کیمپ میں رکھا گیا۔ برے حالات زندگی، صفائی کے فقدان اور متعدی بیماریوں کی وجہ سے 300 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ مینیسوٹا کے گورنر الیگزینڈر ریمسی نے 9 ستمبر، 1862ء کو اعلان کیا کہ، ”مینیسوٹا کے سیو دیسی امریکیوں کا یا تو مکمل خاتمہ کیا جائے یا انہیں ہمیشہ کیلئے ریاست کی سرحدوں سے باہر نکال دیا جائے۔“ اپریل 1863ء میں، امریکی کانگریس نے ڈکوٹا ریزرویشن کا خاتمہ کر دیا، تمام سابقہ معاہدوں کی منسوخی کا اعلان کیا گیا اور ڈکوٹا لوگوں کو مینیسوٹا سے مکمل طور پر باہر نکالنے کی کارروائی شروع کی گئی۔ اس مقصد کیلئے، ریاست کی حدود کے اندر پائے جانے والے ڈکوٹا کی فی کاسہءسر کی قیمت 25 ڈالر مقرر کی گئی تھی۔ محض 208 موویکانٹن لوگوں کو استثنیٰ حاصل تھی کہ جنہوں نے سفیدفام آبادکاروں کیساتھ تعاون کیا تھا۔ لٹل کرو 3 جولائی، 1863ء کو ایک سفیدفام آبادکار، نیتھن لامسن کے ہاتھوں مارے گئے جسے 500 ڈالر اضافی دیے گئے۔لٹل کرو کے کاسہءسر اور کھوپڑی کو سینٹ پال، مینیسوٹا میں نمائش کیلئے رکھا گیا۔ 1881ء تک سیو کی اکثریت نے امریکی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ تاہم، 1890ء میں، امریکی فوج اور سیو کے درمیان آخری بڑے مسلح معرکہ کے دوران ہونیوالے وُونڈڈ نی کے قتل عام نے تمام موثر سیو مزاحمت ختم کر دی۔
آبادکاروں کی طرف سے انکی زمین اور انکے حقوق غصب کیے جانے کی ناانصافی کیخلاف ڈکوٹائی قبائل کا ردعمل فطری تھا۔ ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ ان لوگوں کی غلامی کی ذلت کو تسلیم کرلیں جنہیں اول تو وہاں رہنے کا کوئی حق ہی نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے قومی افتخار اور وقار کو احترام کیساتھ بحالی کی خاطر بہادری سے مزاحمت کی۔ جن یورپی آبادکاروں نے مینیسوٹا پر قبضہ کیا، وہ زمین کے حقیقی مالک کیخلاف اپنے جرائم کے دفاع میں انتہائی حد تک بے رحم، سنگدل اور سفاک تھے۔ تمام نوآبادیت کاروں کی رہنمائی ٹیرا نلیئس (غیر مسکونہ زمین) کا اصول کرتا ہے۔ وہ تمام لوگ جو جرائم کا دفاع کرتے ہیں، لامحالہ ان لوگوں پر بے رحمی سے سنگدلانہ اور تباہ کن انتقام کی آفت برپا کردیتے ہیں جو ان کی مخالفت کرنے کی ہمت کرتے ہوں۔
لٹل کرو کیلئے واحد راستہ مزاحمت تھا اور یہی بلوچستان کی کہانی رہی ہے۔ نواب نوروز خان نے اسکے خلاف مزاحمت کی۔ آج کی تاریخ تک، 15 جولائی، 1960ء کو سات شہیدوں کی پھانسی، پاکستانی ریاست میں بلوچوں کی سب سے بڑی اجتماعی پھانسیاں ہیں۔ سفر خان زرکزئی، شفیع بنگلزئی، جلات خان مری، سعادت مری، نواب اکبر بگٹی، بالاچ خان اور ان گنت بہادر بلوچ شہداء کہ جنہوں نے اپنی جانیں نچھاور کیں اور کر رہے ہیں، ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا ماسوائے ان ناانصافیوں کیخلاف مزاحمت کے۔
کرسمس کے دن سیکورٹی فورسز نے مشکے میں ایک فوجی آپریشن شروع کیا جو ستمبر 1974ء کے چمالنگ آپریشن کی یاد تازہ کرتا ہے جہاں فوج نے بلوچ مزاحمت کو بے اثر کرنے کی کوشش میں نہ صرف جنگجووں کیخلاف بلکہ مری خاندانوں کیخلاف بھی بڑے پیمانے پر آپریشن کیا۔ یہ وہاں ناکام رہی اور یہاں بھی ناکام ہی رہے گی۔ آپریشن کے بارے میں جو رپوٹیں مشکے سے چھن کر آرہی ہیں، اس کی شدت اور مظالم کی بابت بتا رہی ہیں، جہاں ہلاک شدگان میں بڑی تعداد خواتین، بچوں اور بزرگوں کی ہے بشمول املاک کی وحشیانہ تباہی و بربادی کے۔
اس آپریشن کا مقصد لوگوں کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے تاکہ ان لوگوں کے اس عزم کو کمزور کیا جائے جو ان سرمچاروں کی حمایت کر رہے ہیں جنکی قیادت نڈر ڈاکٹر اللہ نذر کر رہے ہیں۔ ریاستی منصوبوں کیخلاف مزاحمت کے سبب تباہ کن انتقام والی سوخت کاریءزمین و املاک کی یہ پالیسی، اگرچہ اسکا استعمال لوگوں کو سرمچاروں کی حمایت سے باز رکھنے کیلئے ہے، اسکا نتیجہ فقط نفرت کی شدت میں اضافہ کی صورت نکلتا ہے۔ ثابت قدم بلوچ، فوج کے برعکس، کم سے کم سہولیات پر زندہ رہتے ہوئے اپنے وجود کو قائم رکھ سکتے ہیں، لہٰذا اس طرح کے آپریشن کے سبب ہونیوالی تباہی پر وہ جلد قابو پا لینگے اور اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ اسکے علاوہ، موویکانٹن جیسے شریکِ کار، کہ جنہوں نے موجودہ آپریشن کی منظوری دی ہے، بلوچ کے درمیان موجود ہیں، لہٰذا یہ امر ناگزیر ہے کہ انکے درمیان ایک مقصد کے تحت حقیقی اتحاد بھی موجود ہے۔ وہ طوق کہ جس نے بلوچ کو پابند سلاسل کر رکھا ہے، اسے توڑنے کا واحد راستہ اتحاد اور مشترکہ اقدامات ہیں جوبلوچ قوم کے وسیع تر مفاد پر مبنی ہوں۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970ءکی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
mmatalpur@gmail.com
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 30 دسمبر، 2012
 
ملکیت سے محروم حتماً بیدخل ہوتے ہیں
 
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
 
ترجمہ: لطیف بلیدی

بلوچستان میں زمین، سندھ کی طرح بندر بانٹ کردی گئی ہوتی اگر بلوچ یہ بات سمجھ نہ لیتے کہ ملکیت سے محرومی کا مطلب بیدخلی ہے.ایک نوآبادیت کے زیر تسلط لوگوں کیلئے سب سے زیادہ قیمتی، چونکہ یہ سب سے زیادہ ٹھوس سرمایہ ہے، اسی لئے اولاً اور سربرآوردہ شے زمین ہے: زمین جو انہیں روزی دیتی ہے اور، سب سے بڑھ کر، عزت نفس۔“ فرانٹز فانون ، افتادگانِ خاک مقبوضہ لوگوں پر اپنی گرفت کو محفوظ و مضبوط بنانے کیلئے زمین کا حصول سب سے زیادہ قابل اعتبار طریقہ ہے۔ اس سے پہلے کہ صیہونی اس قدر طاقتور ہوتے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کے ملک سے نکلنے پر مجبور کرتے، انہوں نے انکی زمین مالدار یہودیوں کی غلیظ دولت سے خریدی، جن میں بیرن (ٹھاکر) بنیامین (ایڈمنڈ جیمز) ڈی روتھشائلڈ (1845 تا 1934) خاص توجہ کا متقاضی ہے۔ اس نے 1900ء میں 25000 ہیکٹر زمین یہودی نوآبادیت ایسوسی ایشن کو منتقل کی۔ ایک اندازے کیمطابق، صیہونیوں کی طرف سے غیرمنصفانہ طریقے سے ہتھیائی گئی زمین کے نتیجے میں کل 7.43 ارب پاونڈ کا نقصان ہوا۔ 1948ء کی عمومی جنگ بندی تک، اسرائیل نے فلسطینی زمین کا 77 فیصد قبضہ کر لیا تھا۔ سب سے پہلے تو پیسے نے فلسطینیوں کو محروم کیا اور پھر مغربی طاقتوں کے طفیل باقی کام طاقت نے کیا۔
اس وقت فلسطینی غزہ اور مغربی کنارے میں زمین کی ٹکڑیوں میں رہتے ہیں، جو کہ دیواروں، غیر قانونی بستیوں اور ناکہ بندیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ سکڑتی جارہی ہیں۔ یہ صرف زمین نہیں جو ضبط کی گئی ہے؛ بلکہ اسکے ساتھ تمام حقوق، وسائل، پانی، سمندر تک رسائی، سفری حقوق؛ مختصراً یہ کہ زندہ رہنے کا حق بھی چھن چکا ہے۔ غلبے کو یقینی بنانے کیلئے سب سے زیادہ ضروری تدبیر زمین کا حصول ہے، زمین پر قبضے کے بغیر نوآبادیت کامیاب نہیں ہوسکتی، لوگوں کو بیدخل کرنے کا سب سے آزمودہ طریقہ انہیں ملکیت سے محروم کرنے کا ہے۔ ستمبر 2010ء کے ہیرالڈ کی رپورٹ کیمطابق ”پاکستان نیوی نے، حصولِ زمین ایکٹ کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے، مقامی زمین مالکان کیلئے باعث تکلیف اور بلوچ سیاسی کارکنوں کیلئے باعث غیظ و غضب ہوتے ہوئے، بلوچستان کے مکران ڈویژن کے ضلع کیچ میں تربت اور دشت کے علاقوں میں 13500 ایکڑ زمین حاصل کی۔ تربت کے زمین مالکان نے صوبائی حکومت کو ایک درخواست بھیجی اور کہا کہ حتیٰ کہ زمین کے حصول سے پہلے انہیں اطلاع تک نہیں دی گئی اور بحریہ کے حکام کی طرف سے انہیں کچھ بھی ادا نہیں کیا گیا ہے۔“ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ، ”گوادر، پسنی اور تربت میں سرکاری اور نجی املاک کی دیواروں پر سیکورٹی فورسز کیخلاف تصاویر منقوش کی گئی ہیں اور ڈویژن کے بعض علاقوں میں اس سال یوم آزادی احتجاج کے دن کے طور پر منایا گیا ہے۔ عینی شاہدین کیمطابق 14 اگست کو گوادر، پنجگور اور کیچ کے اضلاع میں کچھ مشتعل مظاہرین نے قومی پرچم جلانے کے ساتھ ساتھ سیکورٹی فورسز کی علامات بھی جلائی ہیں اور قومی پرچم کے بجائے، انہوں نے بجلی اور فون کے کھمبوں پر وہ جھنڈے لگائے ہیں جسے وہ آزاد بلوچستان کا جھنڈا کہتے ہیں۔“ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ مظالم کے شکار بلوچ جب ان ناانصافیوں کیخلاف مزاحمت کریں، تو بہت سے لوگ انکی مذمت اور سرزنش کرتے ہیں۔
اگرچہ وہاں پہلے ہی سے چار بڑی چھاونیاں، 59 چھوٹی چھاونیاں ، تقریباً 600 چیک پوسٹیں، پاک فضائیہ کے چھ اڈے اور چار بحری اڈے بشمول اورماڑہ میں میگا جناح بحری اڈے کے، ریاست بلوچ عوام کی شدید نفرت کو ملحوظ خاطر نہ لاتے ہوئے، بلوچستان میں مزید زمین کے حصول میں لگی ہوئی ہے۔ کلمت میں نئے بحری اڈے کیلئے تقریباً 30000 ایکڑ زمین ہتھیائی گئی ہے، جہاں کلمتی اور سنگُر برادری/ قبائل کے لوگ رہتے ہیں، جن میں سے 95 فیصد ماہی گیری سے وابسطہ ہیں۔ ہور کلمت سمندری جھیل اعلیٰ معیار کے جھینگوں، مختلف اقسام کی مچھلیوں اور کثیر الانواع سمندری حیات سے مالامال ہے اور یہیں انکی افزئش نسل بھی ہوتی ہے، اور اس زرخیز زمین کا احاطہ 10216 ہیکٹر ہے اور بلوچستان کی 21 فی صد ساحلی جنگلات بھی یہیں ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بحریہ کے اڈے ماحولیات کو تباہ کردینگے اورمقامی لوگوں کو وہاں سے ہٹاکر ان کی زندگی کو بری طرح سے تہہ و بالا کردینگے اور انہیں ماہی گیری کے علاقوں سے محروم کردینگے۔
یہاں تک کہ مئی 2007ء میں چنیدہ بلوچستان اسمبلی نے بھی پرویز مشرف کی حکومت کی منصوبہ بندی کے تحت سونمیانی میں 500000 ایکڑ پر مشتمل ایک عالیشان ساحلی شہر کی تعمیر پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ ملک سراج اکبر نے (ڈیلی ٹائمز، 26 مئی، 2007) کو رپورٹ کیا کہ: ”مولانا عبداواسع نے انکشاف کیا ہے کہ وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ بابر غوری، کوئٹہ میں صوبائی حکومت کو بہلاتے پھسلاتے رہے ہیں کہ وہ مذکورہ زمین کے ہر ایکڑ کو محض ایک روپے کے عیوض فروخت کرے۔“ سراج نے مزید کہا، ”یہاں وہی طریقہ کار اپنایا گیا تھا جسکے تحت حال ہی میں گوادر کی اشرافیہ سنگارہاوسنگ اسکیم میں کئی ایکڑ زمین فروخت کی گئی اور گوادر میں بہت بڑی زمین سستے داموں ایک فائیو اسٹار ہوٹل کی تعمیر کیلئے ایک ارب پتی شخص کو فروخت کی گئی تھی۔“ گوادر میں زمینوں کی چھینا جھپٹی اس قدر شیطانی تھی کہ سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے تمام فروخت اور الاٹمنٹ پر پابندی لگا دی تھی۔ اس سے قبل اُسی سال مارچ میں، بلوچستان اسمبلی نے کوئٹہ کے قریبی علاقے اغبرگ میں بازئی قبیلے کی ہزاروں ایکڑ زمین کی پاک فضائیہ کے حصول کیخلاف متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی تھی۔
پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کی تقریباً 80000 ایکڑ کی مانگ، بشمول ہنگول نیشنل پارک میں 23000 ایکڑ کی مانگ کے، جسے وہ جے ایف 17 جنگی جہازوں کی صلاحیتوں کو جانچنے کیلئے استعمال کر نیکا ارادہ رکھتے تھے، اس سے نمٹنے کیلئے میں نے مئی 2008ء میں ایک قومی یومیہ میں ’ٹیسٹنگ اوقات‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ اس نے ایک شدید ردعمل پیدا کیا اور پی اے ایف کے ترجمان نے میری دلیلوں پر سوالات اٹھائے، جنکا میں نے دفاع کیا۔ اس طرح کے مسائل پر روشنی ڈالنا ہمیشہ اداروں اور افراد کی بلاکسر خفگی کو مدعوکرتے ہیں، اور اسکے بعد میرے خلاف تنقیدی خطوط آنا شروع ہے۔ بلوچستان میں زمین کے حصول کی ناانصافیوں کی تفصیلات میرے ان مضامین مل سکتی ہیں، ”زمین خریدو، کہ اب وہ انکا استعمال نہیں کررہے“ (ڈیلی ٹائمز، 7 فروری، 2010)، اور ایک قومی روزنامے میں ”میگا حماقتیں“ (31 جنوری، 2008) ۔
بلوچستان کی طرح سندھ کو بھی یہ صعوبتیں جھیلنی پڑی ہیں۔ ایک قومی ہفتہ وار، مورخہ 19تا 25 اکتوبر 2012ء میں، مسٹر عیسیٰ داود پوتہ کاخط جس میں شاہد کاردار کے ’خطّوں میں تقطیب:عدم اطمینان کی جڑیں‘ سے اقتباس ہے۔ انہوں نے لکھا: ”غلام محمد بیراج کی قابل کاشت 1.48 ملین ایکڑ زمین میں سے 0.87 ملین ایکڑ دفاع کے اہلکاروں، کوئٹہ اور صوبہ سرحد کے قبائلیوں، اور مشرقی پاکستان سے آئے آبادکاروں کو مختص کیا گیا ہے۔ گڈو بیراج کی 0.64 ملین ایکڑ زمین میں سے 0.32 ملین ایکڑ زمین دفاع کے اہلکاروں، سول بیوروکریٹس اور نئے دارالحکومت اسلام آباد، اور تربیلا اور منگلا ڈیموں کی تعمیر کے سبب بے گھر ہونے والے خاندانوں کو مختص کیا گیا ہے۔ سکھر بیراج کی 0.28 ملین ایکڑمیں سے 0.13 ملین ایکڑ زمین فوجی اہلکاروں کو دی گئی ہے۔ سب سے زیادہ مثالوں میں ’دفاعی اہلکار‘ پنجابیوں کا مترادف ہے۔“ مسٹر داود پوتہ نے تکلیف دہ انداز میں مزید کہا کہ ”سادہ ریاضی سے پتہ چلتا ہے کہ 2.4 ملین ایکڑ سیراب زمین کا 55 فیصد (یعنی 1.32 ملین ایکڑ) غیر سندھیوں کے پاس جا چکا ہے۔“ اس کے باوجود لوگوں کو شکایت ہے کہ سندھی غیرضروری طور پر نالہ کناں ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا ذوالفقار آباد منصوبہ، اس کے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی طرح، سندھ اور سندھیوں کیلئے ایک سیاہ وارنٹ ہے۔
بلوچستان میں زمین، سندھ کی طرح بندر بانٹ کردی گئی ہوتی اگر بلوچ یہ بات سمجھ نہ لیتے کہ ملکیت سے محرومی کا مطلب بیدخلی ہے۔ کسی کو بھی کسی بھی بہانے سے کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بلوچ قوم کو ’ان کی سب سے زیادہ ضروری قدر‘ اور ان کے وقار کی بنیادی وجہ: انکی زمین سے، عاق کردے۔ انہوں نے اس حق سے محروم کرنیکی تمام کوششوں کیخلاف مزاحمت کی ہے، کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ انکا انجام فلسطینیوں کی طرح محرومی، بیدخلی اور مفلسی کی صورت میں ہو جن کیلئے اسرائیلی ریاست نے زمین کی ٹکڑیاں مختص کر رکھی ہیں۔ ان کا مستقبل اور ان کا وقار ان کی زمین پر انکے حق اور کنٹرول پر منحصر ہے۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970ءکی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
mmatalpur@gmail.com
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 23 دسمبر، 2012


 
 
لبریشن چارٹر آف بلوچستان پر سردار مینگل کے تحفظات کی سیاسی حیثیت
لیاقت نگہبان





ناقابل اصلاح
 
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
 
ترجمہ: لطیف بلیدی
لوگوں کو حقوق دیئے بغیر امن کبھی بھی قائم نہیں ہو سکتا۔ ریاست چاہے جتنی بھی سفاک ہو لیکن عوام کی استقامت اسے ہمیشہ پچھاڑ دیتی ہے
سال 1951ء کی فلم ہلچل میں مرکزی کردار دلیپ کمار اور نرگس تھے، یعقوب نے ایک قیدی کے طور پر معاون کردار ادا کیا تھا۔ ایک منظر میں، وہ اپنے ساتھیوں سے گھرا ہوا ہے، ان میں سے ایک حسب معمول اپنے بے تکے انداز میں آکر کوئی بچگانہ بات کہہ دیتا ہے اور یعقوب اپنا سر ہلاتے ہوئے کہتا ہے، ”ارے او کانے، تو نہ سدھرا ہے اور نہ تو سدھرے گا۔“ ہو سکتا ہے کہ اس نے یہ بات پاکستانی حکمران اشرافیہ اور اسٹابلشمنٹ کیلئے بھی کہی ہو جن کا کردار بالکل ”ہلچل“ کے کانے کی طرح ہے۔ وہ ناقابل اصلاح ہیں کیونکہ وہ تاریخ یا اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے سے انکاری ہیں۔ وہ ہمیشہ سے ’اندھے رہے ہیں اور ہمیشہ اپنے اندھے پن میں ہی رہیں گے‘۔
ذوالفقار مگسی اور بلوچستان پر ان کی طاقتور اعلی سطحی کمیٹی، بلکہ عذاب میں مبتلا بلوچستان پر کمیٹی، نے اپنی مضحکہ خیز پیشکش کیساتھ کہا ہے کہ اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے اگر مسلح جدوجہد ترک کردیں تو اسکے بدلے انہیں روزگار، مالی مراعات دی جائیں گی، انکی آبادکاری اور ایک خاص ویلفیئر فنڈ کے تحت جامع طور پر ان کی مکمل بحالی کی جائے گی۔ کمیٹی کی تشکیل اور اجزائے ترکیبی اس بات کو واضح طور پر اجاگر کرتے ہیں کہ بلوچستان میں معاملات کون چلارہے ہیں۔ اس میں وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل محمد عالم خٹک، چیف سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد، آئی جی ایف سی میجر جنرل عبیدﷲ خان، آئی جی پولیس طارق عمر خطاب، ہوم سیکرٹری کیپٹن (ر) اکبر حسین درانی اور دیگر فوجی حکام نے شرکت کی۔
کمیٹی بظاہر اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ بلوچ نے اپنے اذیت رساں کے صدقات کے انتظار میں ہاتھوں میں کشکول تھامے قطار میں کھڑے ہونے کے بجائے مسلح جدوجہد کا انتخاب کیوں کیا ہے۔ اگر انہوں نے کم یا زیادہ بدتر زندگی، جو کہ بلوچ عوام کی اکثریت گزشتہ 65 سالوں سے گزار رہی ہے، گزارنے کا انتخاب کیا ہوتا تو وہ کبھی بھی زبان زد عام و خاص پہاڑوں پر نہیں گئے ہوتے۔ ان بہادر بلوچوں نے حکومت کی تجویز کردہ سب سے بہترین پیشکش سے بھی کچھ زیادہ کا مطالبہ کیا ہے؛ انکا مطالبہ اس جبری الحاق کے ناانصافی کی منسوخی ہے جسکا ارتکاب 27 مارچ، 1948 کوکیا گیا تھا۔
قلات کی آزادی کی تاریخ کے حوالے سے ریکارڈ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ قلات کے وزیر خارجہ ڈگلس فیل کی یادداشتوں کی تمہید میں ڈاکٹر حمید بلوچ لکھتے ہیں: ”4 اگست، 1947 کو برطانوی حکومت اور پاکستان ڈومینیئن کے نمائندوں نے سرکاری طور پر قلات کو برطانوی حکومت کیساتھ معاہداتی تعلقات رکھتے ہوئے ایک آزاد وخودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ، اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ قلات ریاست کی حیثیت بھارتی ریاست سے مختلف تھی۔ قلات ریاست کی آزادی کا باضابطہ اعلان 11 اگست، 1947 کو کیا گیا اور آل انڈیا ریڈیو نے اسے نشر کیا۔ 15 اگست، 1947 کو میر احمد یار خان، قلات ریاست کے آخری آزاد حکمران، نے سرکاری طور پر آزادی کا اعلان کردیا۔“ وائسرائے ہاوس نئی دہلی کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس اعلامیہ بھی یہی کہتا ہے۔
بلوچ نے کبھی بھی روزگار کے بہتر مواقع، فلاحی وظائف، ریاست کی خیرات وصدقات اور مراعات کیلئے جنگ نہیں لڑی؛ اور اگر وہ ان کیلئے لڑے ہوتے، تو ہزاروں زندگیاں قربان کرنے اور بخوشی محرومیوں، بے گھر ہونے اور موت کے عذاب کو قبول کرنے کا جواز کیا ہے؟ 65 سال کی قربانیوں کے بعد ان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی ہے کہ اب وہ نوکریوں کو اپنے مقصد کے متبادل کے طور پر قبول کریں گے۔ بلوچ کیخلاف پاکستانی ریاست کے منظم امتیاز نے صرف ان کے اس عزم کو مضبوط کیا ہے کہ وہ اپنے حقوق کا تحفظ کریں۔ پاکستانی ریاست کہ جسکی کی نظر، تمام ظالموں کی طرح، بلوچستان کی دولت اور وسائل پر ٹکی ہوئی ہے، بلوچ کو وعدوں اور بے تکی باتوں کی پرہیزی غذاء کھلانے کی بے نتیجہ کوشش کر چکی ہے۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو وہاں کی اقتصادی اور سیاسی تصویر اتنی مایوس کن نہ ہوتی۔ یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ نے انکشاف کیا ہے: ”جبکہ پاکستان مجموعی طور پر ہزارسالہ ترقیاتی اہداف (ایم ڈی جی) کے حصول میں سب سے زیادہ پیچھے ہے، اور بلوچستان میں صورتحال سب سے زیادہ ابترہے۔ سال 2001-02 میں کل نفری غربت 48 فیصد تھی، جو کہ ملکی اوسط کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ تھی۔ سال 2005-06ء میں یہ تناسب بڑھ کر 50.9 فیصد ہوئی جوکہ ملکی اوسط کے مقابلے میں 22.3 فیصد زیادہ تھی۔ (جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے یہ تیزی سے بڑھ گئی ہوگی۔) پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں کم وزن کا تناسب 2005-06ء میں 43 فیصد تھا، جو ملکی سطح سے پانچ فیصد اوپر تھا۔ اسی طرح، عالمگیر بنیادی تعلیم کے ہدف کا حصول ملکی اوسط سے 13 فیصد کمتر ہے۔ خواندگی کی شرح (45 فیصد) ملکی خواندگی کی شرح سے 12 فیصد نیچے ہے۔
سال 2008 - 09 میں پرائمری تعلیم کیلئے جی پی آئی (جینوئن پروگریس انڈیکیٹر) 0.58 تھی، جوکہ پاکستان کی 0.84 کی سطح سے 0.26 پوائنٹس نیچے ہے۔ پی ڈی ایچ ایس (پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے) کی طرف سے فراہم کردہ 2006 - 07 کے تازہ ترین تخمینے کے مطابق زچگی میں اموات کی شرح ایک خطرناک سطح تک پہنچ چکی ہے جوکہ ایک لاکھ زندہ پیدائشوں میں785 ہے، جبکہ بقیہ پاکستان میں یہ 276 ہے۔ قبل از پیدائش دیکھ بھال اور ہنر مند زچگی ماہرین کا تناسب 2008 - 09 میں بالترتیب 15 اور 53، اور 17 اور 41 تھا۔ اسی طرح، زچگی میں اموات کی شرح کو کم کرنے کی پیش رفت اوسط سے 36 فیصد نیچے ہے۔ دستیاب اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں نومولود بچوں کی اموات کی شرح اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات کی شرح 1990ء کو اوائل سے لیکر 2004ء تک مسلسل بڑھی ہیں۔ گزشتہ سال، جس کیلئے اعداد و شمار دستیاب ہیں، ان تخمینوں کیمطابق اس شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جوکہ 1000 زندہ پیدائشوں میں 158 اموات ہے، یہ پاکستان کے مقابلے میں 2006 - 07 کے تخمینوں کیمطابق 1000 زندہ پیدائشوں میں94 بچوں کی اموات کی اوسط کیساتھ زیادہ ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح منظم طور پر بلوچ کو ایک ناموافق صورتحال میں ڈال دیا گیا ہے تاکہ انہیں کونے سے لگا دیا جائے اور وہ بطور ایک قوم دوسری اقوام کیساتھ مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہوں۔ انہیں اقتصادی، سیاسی اور سماجی طور پر غیر اہم بنانے کیلئے ایک منظم کوشش کی گئی ہے تاکہ بہ آسانی انہیں اطاعت گزاری پر مجبور کیا جا سکے۔ پاکستانی حکمران اور اسٹابلشمنٹ ترقی میں کمی کیلئے سرداروں کو دوش دیتے نہیں تھکتے اور ان تخلیق کردہ دہشت انگیز شبیہوں کے سبب عوام اس بات پر آسانی سے یقین بھی کرلیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر سردار فوج اور بیوروکریسی کی چھاونی کے پیروکار رہے ہیں اور ان کے اپنے علاقوں میں بھی کچھ نہیں کیا گیا ہے جسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ’چنی ہوئی‘ بلوچستان اسمبلی کی مکمل بے حسی کی ایک مثال یہ ہے کہ امور کو چلانے کیلئے وہاں ایک بھی اسٹینڈنگ کمیٹی کا وجود نہیں ہے۔ کسی کو کوئی پرواہ نہیں جب تک کہ پیسے کا بہاو جاری رہے اور وہ مرکز کی تابعداری کرتے رہیں۔

لوگوں کو حقوق دیئے بغیر، امن کبھی بھی قائم نہیں ہو سکتا۔ ریاست چاہے جتنی بھی سفاک ہو لیکن عوام کی استقامت اسے ہمیشہ پچھاڑ دیتی ہے۔ زبردست مشکلات کیخلاف بلوچ اپنی جدوجہد میں ثابت قدم رہے ہیں، جس سے ان کی استقامت اور کردار کی مضبوطی و محکمی مشخص ہوتی ہے؛ کمزور عزم کے لوگوں نے بہت پہلے اسے الواع کہہ دیا ہوتا۔ یہ مضبوطی و محکمی ضائع ہو جائے گی اگر انتہائی منفی صورتحال کی حقیقت کو نظر انداز کر دیا جائے اور اسٹریٹجک مقاصد کے حصول کیلئے اتحاد کی ضرورت کو فوری طور پر نہ سمجھا جائے۔

آخری بات: حتف 5 غوری میزائل کے ملبے کے سبب دادو میں قریب قریب ہلاکتیں کی ہوئی ہوتیں؛ ذرا بلوچستان میں ہدف کیے گئے علاقوں کیلئے اسکے نتائج کا تصور کریں، جوکہ ایٹمی اور میزائل تجربوں کیلئے استعمال ہونیوالا خوکِ ہندی ہے۔

مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداء سے ایک تعلق ہے
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 2 دسمبر، 2012

......................................................................................
اسی ساگ کیساتھ وہی روٹی
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی

آئین یا عدالتی منظوری کے لبادے میں کیے گئے غیر قانونی اقدامات نہ تو انہیں اطمینان بخش قرار دے سکتے ہیں اور نہ ہی اخلاقی طور پر قابل قبول

جنرل کیانی کے ذریعے فوج نے بلوچستان کے مسئلے پر اپنی ایک سطری پوزیشن دی ہے کہ، ”فوج کسی بھی سیاسی عمل کی مکمل طور پر حمایت کرتی ہے جب تک یہ آئین کے اندر اندر ہو۔“ یہ بیان بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر اختر مینگل کے حالیہ دورے کے دوران اٹھائے گئے اقدامات اور بیانات اور انکے ردعمل کے جواب میں تھا۔ فوج کے اس مختصر بیان نے ان لوگوں کیلئے حدود مقرر کر دیے ہیں جو بلوچ حقوق کے معاملے کیساتھ نمٹنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں اور بلوچ کیلئے بھی اس کے نتائج واضح کردیے ہیں جو اپنے ناگزیر حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے اس بیان نے یہ بھی خبردار کیا کہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بھی قسم کے اٹھائے گئے اقدامات ان کیلئے ناقابل قبول ہونگی۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ بلوچ کو ریاست کی پالیسیوں میں تبدیلی کیلئے امید تک نہیں کرنی چاہیے۔ 26 مارچ، 1948ء سے لیکر، جب پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح نے فوج کو جیونی اور پسنی جانے کا حکم دیا اور اگلے دن خان آف قلات احمد یار خان کو پاکستان کے ساتھ الحاق پر مجبور کیا گیا، جس نے قلات ریاست کی 227 دن کے مختصر مدت کی آزادی کو ختم کیا، فوج کا پسندیدہ آئین اپنی جگہ موجود تھا۔ ان ناانصافیاں اور اس کے بعد سے جن اقدامات کا ظہور ہوا، وہ تمام پاکستانی ریاست کی طرف سے آئینی تصور کی جاتی ہیں۔ 6 اکتوبر، 1958ء کو قلات پر دوسرا حملہ بھی آئینی تھا کیونکہ عدلیہ نے مارشل لاء کو بالکل اسی طرح قانونی حیثیت عطاء کی تھی جس طرح کہ اس کے بعد اسے نوازی گئیں۔ مارشل لاء کے قوانین اور فوجی حکمرانوں کے عبوری آئینی آرڈر (پی سی او) کو عدلیہ کی طرف سے قانونی حیثیت دی گئی، جس نے انہیں فی الحقیقت آئین بنا دیا۔ بعض نیّر حضرات پرویز مشرف کے پی سی او کی توثیق کرنے پر اب سپریم کورٹ کی تعریفیں کر رہے ہیں۔

اس ملک میں ریاست کی طرف سے منظور شدہ تمام اقدامات، ان کی قانونی حیثیت سے قطع نظر، آئینی تصور کی جاتی ہیں۔ یہ اسی اصول کے تحت تھا کہ جب نواب نوروز خان کے بیٹوں اور رشتہ داروں کو 15 جولائی، 1960ء کو حیدرآباد اور سکھر کی جیلوں میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ 1960ء کے عشرے میں مری اور مینگل کے علاقوں میں کیے گئے فوجی آپریشن یکساں طور پر آئینی تھے۔ 25 مارچ، 1971ء کو عوامی لیگ کو اکثریتی جیت ملنے کے باوجود حکومت کرنے کے حق سے انکار کے بعد بنگالیوں پر فوجی کریک ڈاون بھی آئینی تھا۔ یہاں کبھی بھی کوئی کام آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہیں کیا گیا، جو کہ مضحکہ خیز حد تک فوج کی خواہشات اور پالیسیوں کی نمائندگی کرتا ہے اور اسے ہمیشہ تمام ریاستی اداروں کی طرف سے حمایت حاصل رہی ہے۔ جنرل کیانی نے محض اسے دہرایا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی بھی سیاست دان اپنے مزاحیہ خیالات کیساتھ ہیرو بننے کی کوشش کرے، انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ مقررہ طریقہءکار سے کوئی انحراف نہ کرے۔

فروری 1973ء میں بلوچستان میں سردار عطاء ﷲ مینگل کی منتخب حکومت کی برخاستگی اور بعد میں فوجی کارروائی ذوالفقار علی بھٹو کی سویلین حکومت کی طرف سے شروع کی گئی تھی، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کارروائی ان کی انتہائی حد تک خودنمائی والی آئین کے نفاذ کے بعد کی گئی تھی۔ اس فوجی کارروائی کے دوران، جسے آئین کی طرف سے مکمل طور پر منظوری دی گئی تھی، ہزاروں افراد ہلاک ہو ئے، ان گنت زخمی اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ یہاں آئینوں نے بلوچ عوام کیخلاف زیادتیوں کو فروغ اور تحفظ دیا ہے، بالکل اسی طرح جیسا کہ انہوں نے بنگلہ دیش کے مسئلے پر دیا۔

آئین یا عدالتی منظوری کے لبادے میں کیے گئے غیر قانونی اقدامات نہ تو انہیں اطمینان بخش قرار دے سکتے ہیں اور نہ ہی اخلاقی طور پر قابل قبول۔ اس بات کا ذکر یقینی طور پر بے جا نہ ہوگا کہ جنوبی افریقہ کی رنگبھیدی روش آئین میں شامل تھی، بالکل اسی طرح جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے تک، آسٹریلیا میں ایبوریجینیز اور امریکہ میں افریقی نژاد امریکیوں کیخلاف امتیازی سلوک روا تھا۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کو ایک قانونی اور آئینی تحفظ حاصل ہے لیکن اس سے فلسطینیوں کی مشکلات حل نہیں ہوسکتیں یا یہ انہیں قابل قبول نہیں بنا سکتیں۔ یوگوسلاویہ میں سرب غلبہ بھی آئینی تھا اگرچہ آخرکار وہ بوسنیا، کروئیشیا، اور دوسروں کو اپنے الگ الگ راستوں پر چلنے سے نہ روک سکی۔ ترکی کا آئین کردوں پر ظلم و جبر کرتا ہے۔ آئین نے کبھی بھی نوآبادیت زدہ لوگوں کیلئے قومی حقوق کی ضمانت نہیں دی ہے۔ حد سے زیادہ پیش بینی کی علامت سمجھی جانیوالی اٹھارویں ترمیم کی رکاوٹ کے باوجود، یہاں پر بھی آئین قوموں کی مسلسل محرومی کو یقینی بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

گزشتہ 65 سالوں میں بلوچ نے پانچ فوجی آپریشنوں کی مار جھیلی ہے، یہ سب منظور شدہ آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے کی گئیں۔ بلوچ کو یہ بات سمجھنے میں انتہائی مشکل پیش آرہی ہے کہ ان کیلئے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے حکمرانی میں کونسی اچھائی موجود ہے۔ مشرف کی عدالتی طور پر منظورشدہ 1999ء کے آئین کے بعد، اور اس منتخب حکومت کے تحت، ہزاروں بلوچ لاپتہ ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے، جن میں 600 سے زائد افراد صرف گزشتہ دو سال کے دوران مارے جاچکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اندرون ملک بے گھر ہوئے ہیں اور وہ علاقے جہاں کی عوام فوج اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کی آمرانہ تسلط کے تحت رہ رہے ہیں، وہاں کے لوگوں کو خضدار اور قلات کے قریب واقع توتک اور گِدر کی طرز پر ہونیوالی حالیہ ظالمانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

چیک پوسٹوں پر معمول کی ذلت آمیز تلاشی اور گھروں پر چھاپے بھی آئینی بالادستی کا حصہ ہیں جو کہ یہاں غالب ہے۔ بلوچ کیلئے کوئی چیز تبدیل نہیں ہوگی؛ وہ فوج اور سویلین حکمرانوں کے تحت یکساں طور پرمصائب کا شکار ہیں؛ وہ رئیسانی کی بدنظم حکومت سے مصائب کاشکار ہیں اور ان کی حالت اختر مینگل کی حکمرانی کیساتھ بھی تبدیل نہیں ہوگی۔ سندھی میں ایک کہاوت ہے کہ، ”ساگی مانی ساگ ساں“، جس کا مطلب ہے کہ، ’ہمیشہ اسی ساگ کیساتھ وہی روٹی ۔‘ بلوچ عوام مینگل سے سخت چوکنا ہیں کیونکہ وہ اسے اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ اختر مینگل اسی آئینی حدود کے جمود کی مدد کر رہے ہیں جو کہ ان کیلئے زہر قاتل رہی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ موجودہ وزیر اعلیٰ رئیسانی نے کئی بار یہ بات ریکارڈ پر کہی ہے کہ ایف سی ایک متوازی حکومت چلا رہی ہے، اور پھر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بلوچستان میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہورہا ہے بلکہ ایف سی کو ایک محدود مدت کیلئے پولیس کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ اتفاق سے، کوریا کی جنگ اقوام متحدہ کی طرف سے 1950ء میں ایک پولیس کارروائی کے طور پر شروع کی گئی تھی اور صدر ہیری ایس ٹرومین نے شمالی کوریا پر جارحانہ امریکی کارروائی کے جواب میں اس کا حوالہ اقوام متحدہ کے زیر سرپرستی ایک ’پولیس کارروائی‘ کے طور پر دیا تھا۔ پولیس کارروائی فوجی / سیکورٹی کی تعلیمات اور بین الاقوامی تعلقات کیمطابق اس فوجی کارروائی کیلئے ایک تعبیری لفظ ہے جس میں جنگ کے رسمی اعلان کے بغیر فوجی کارروائی کی جائے۔ لہٰذا پولیس کارروائی کی آڑ میں بلوچ کیخلاف ایک جنگ جا رہی ہے۔ تمام لاپتہ اور ہلاک اور پھینک دی گئی لاشیں اسی پولیس کارروائی کا نتیجہ ہیں۔

بلوچ کیلئے المیہ اور درد صرف لاپتہ اور ہلاک شدگان کی بابت نہیں ہے؛ تین نسلوں کی صلاحیتوں اور مواقع سے مکمل محرومی کا سانحہ بھی یکساں طور پر شدید تکلیف دہ ہے۔ بلوچ کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ وہ مزید اس بات پر یقین کریں کہ انتخابات اور آئین ان کے مسائل کا حل ہیں کیونکہ اگرچہ اسلام آباد اور کوئٹہ میں منتخب حکومتیں تو موجود ہیں، لیکن ان کیخلاف مظالم مشرف کے ’آئینی‘ حکومت کے دورسے بھی زیادہ بھیانک روپ کیساتھ جاری و ساری ہیں۔ اگر کم سے کم کہا جائے تو یہ توقع رکھنا انتہائی احمقانہ ہوگا کہ بلوچ خالی خولی یقین دہانیوں پر اعتماد کریں گے یا دھمکیوں سے ڈر جائیں گے۔

مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 7 اکتوبر، 2012

بلوچ مسلہ اور اختر مینگل کے چھ نکات
بلوچ خان دھانی
امید کی ایک کرن؟

تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر

ترجمہ: لطیف بلیدی





اس بات سے کوئی انکار نہیں ہے کہ سردار اختر مینگل اثر و رسوخ رکھتے ہیں لیکن ان کی مشروط اطاعت نے بہت سے بلوچوں کو ان سے دور کردیا ہے اور ان کے طاقت کی اساس تیزی سے ڈھیہ جائیگی
سردار اختر مینگل کی غیر متوقع مشروط اطاعت اور سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے نے چند لوگوں کو تو خوش کیا ہے لیکن بلوچ کی اکثریت کو غصہ دلا دیا ہے۔ وہ ایک آزاد بلوچستان کے مطالبے کے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ 8 مئی، 2009ء کے ڈیلی ٹائمز میں، اس وقت اسکے کوئٹہ کے نمائندے ملک سراج اکبر نے ایران کی سرحد سے ملحق مغربی ضلع پنجگور سے اختر مینگل کی تقریر رپورٹ کی تھی۔ مینگل نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی (بی این پی ایم) کا اصل مقصد پاکستان سے بلوچستان کی آزادی حاصل کرنا ہے، جس کیلئے انکی پارٹی زمین تیار کرنے اور تمام بلوچ قوم پرست سیاسی گروہوں کے درمیان اتحاد کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی این پی مینگل کے سربراہ نے کہا کہ بلوچ اب ان بلا روک فوجی کارروائیوں اور وفاقی حکومت کی طرف سے ان کے قدرتی وسائل کی ضرورت سے زیادہ استحصال سے تنگ آچکے ہیں، اور اب بی این پی مینگل پاکستان سے بلوچستان کی علیحدگی چاہتا ہے۔ ایسی برگشتگی کے پیچھے ضرور کچھ اچھی وجوہات ہونگی، یہاں اچھی وجوہات وزیر اعلیٰ کی پرکشش کرسی پر براجمانگی ہے۔ یقینا یہ ایک برا سودا ہے، کیونکہ اس سے بلوچ حقوق کو ایک حقیر معاوضے کے عیوض بیچا جائے گا۔ بلوچ کے خون کے تالاب سے گزر کر اس انتہائی مرغوب منصب پر بیٹھنا عدم اخلاص کو مجسم کرنے کے مترادف ہے۔
مینگل کے چھ پوائنٹس، شیخ مجیب کے چھ پوائنٹس کے مماثل نہیں ہیں، یقینی طور پر یہ وہ مطالبات نہیں ہیں کہ جس کیلئے بلوچ لڑے ہیں اور اپناخون بہایا ہے، بلکہ یہ ان کی مشروط اطاعت اور انتخابات میں شرکت کیلئے تیاری کی امید میں چھوڑا گیا ایک شوشہ ہے تاکہ ایک بار پھر وہ چیف منسٹر کی کرسی کی زینت بنیں کہ جسے بلوچ ’چیپ منسٹر‘ کہتے ہیں۔ انہوں نے علامات کے خاتمے کیلئے اقدامات کا مطالبہ کیا ہے لیکن بدقسمتی سے، بہ آسانی اس بیماری کو بھول گئے ہیں جو کہ بنیادی طور پر ان علامات کی وجہ ہے۔ انہوں نے غیر یقینی ذاتی فوائد کے بدلے بلوچ کی قربانیوں کو قربان گاہ پر بلی چڑھا دیا ہے اور بلوچ کے اپنے ناگزیر حقوق کی مانگ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستانی ریاست کی خواہشات کیمطابق انکی اطاعت گزاری اور لاپتہ افراد کی بحالی کے سپریم کورٹ کے ڈرامہ میں شرکت نے محض بلوچ کیخلاف ماضی، حال اور مستقبل کے مظالم اور زیادتیوں کو حق بجانب ہونے کا جواز فراہم کیا ہے۔ انہوں نے اپنا حصہ اسی اسٹابلشمنٹ کے پڑلے میں ڈال دیا ہے جو 1976ء میں ان کے بھائی اسد اللہ مینگل اور احمد شاہ کو لاپتہ کرنے کا براہ راست ذمہ دار ہے۔
مینگل کے چھ پوائنٹس، جنہیں فوج اور حکومت کی طرف سے نمائش کے طور پر مسترد کر دیا گیا ہے، یہ ہیں: بلوچ کیخلاف فوجی آپریشن کا خاتمہ؛ تمام لاپتہ افراد کی قانونی عدالت کے سامنے پیشی؛ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی میں کام کرنیوالے تمام پراکسی ڈیتھ سکواڈ کا خاتمہ؛ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے کسی مداخلت کے بغیر بلوچ سیاسی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں کی بحالی؛ ان ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانا جو بلوچ سیاسی رہنماوں اور کارکنوں پر غیر انسانی تشدد، انکے قتل اور لاشیں پھینکنے میں ملوث ہیں؛ اور ان ہزاروں بے گھر ہونیوالے بلوچوں کی بحالی کیلئے اقدامات شروع کرنا جو انتہائی مخدوش حالات میں رہ ہے ہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب سپریم کورٹ کی سرپرستی کے تحت کیا جائے گا، تو وہ ایک سعیءلاحاصل میں مبتلا ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں آج تک کچھ بھی حاصل نہیں کیا ہے؛ یہ مانتا ہے کہ اس کے 68 احکامات میں سے 60 کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ یہ خطرے میں گھری سپریم کورٹ کا 61 واں ’واجب التعمیل حکم امتناعی‘ ہو گا۔ لوگوں کا لاپتہ اور ہلاک ہونا جاری و ساری ہے۔ کوئی تبدیلی نہیں آئیگی کیونکہ ذمہ داران بہت زیادہ طاقتور ہیں اور بلوچستان میں انکا بہت کچھ داو پر لگا ہوا ہے۔
تاہم، مینگل زیادہ پرامید لگ رہے تھے جب انہوں نے سپریم کورٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ، ”یہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ بلوچ عوام کو امید کی ایک کرن مل گئی ہے۔“ ہو سکتا ہے ان کیلئے وہاں امید کی ایک کرن ہو لیکن درحقیقت بلوچ کو 27 مارچ، 1948ء کے بعد سے اور کچھ نہیں بلکہ ایک گہری تاریکی کا سامنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اختر مینگل ہم سب کو یہ بات سمجھنے میں مدد کریں گے کہ تاریکی اور ظلم کے کفن میں لپٹے بلوچستان کو یہ ’امید کی کرن‘ کس طرح منور کرے گی۔ اگر اس امید کی کرن کا مطلب محض یہ ہے کہ بلوچستان ان کے داروغگی کے تحت ہو گا تو بلوچ کا بوجھ دوگنا ہوجائے گا۔
مینگل نے یہ بھی کہا کہ، ”ان کے مطالبات پر عمل درآمد کے بعد بلوچ کے مقبول اور حقیقی نمائندوں اور فوجی مقتدرہ کے درمیان صوبے کے مستقبل پر بامعنی مذاکرات ممکن ہیں۔“ حقیقی بلوچ نمائندوں سے انکی مراد شاید وہ خود ہیں۔ مظلوم اور ظالم کے درمیان بامعنی مذاکرات کبھی نہیں ہوسکتے ہیں اور یقینی طور پر نہیں جب اتنا زیادہ بلوچ خون بہہ چکا ہو۔ اس کے علاوہ، اپنے مرشدین کو مطمئن کرنے کی کوشش میں، مینگل نے طلاق کے بارے میں ایک استعارے کا استعمال کرتے ہوئے بلوچ عزت، وقار اور قربانیوں کی قدر و منزلت گھٹا دی ہے؛ بلوچ نہ کسی کو جہیز میں نہیں دیے گئے نہ انکی شادی کرائی گئی تھی؛ وہ ایک مہذب تاریخ کیساتھ ایک قوم ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
اگر کوئی بھی یہ سوچتا ہے کہ مینگل کی واپسی بلوچ حقوق کی جدوجہد کیلئے غیراہم ہے تو اسے دوبارہ سوچنا چاہیے۔ نا انصافیوں کا ارتکاب کرنیوالوں کیساتھ سمجھوتہ کرنے پر رضامندی بلوچستان میں زیادتیوں کو قانونی قرار دے دیگی، اور اس کے علاوہ، بلوچ کے اندر آپسی رنجشوں کے امکان میں اضافہ کردیگی، جو کہ ان لوگوں کو عارضی طور پر نقصان پہنچائیگی جو حقوق کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ اتنا ہی اہم دوسرا عنصر یہ ہے کہ یہ ان لوگوں کو ضرور کمزور کرے گی جو دنیا اور یہاں کی سول سوسائٹی سے بلوچ کیخلاف کیے جانیوالے نا انصافیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مینگل کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی قبولیت ہزاروں لاپتہ اور ان 600 بلوچوں کہ جن پر تشدد ہوا اور انہیں ہلاک کیا گیا، ان کیلئے انصاف کی جنگ کو مزید مشکل اور غیر یقینی بنا دیگی۔ جبری طور پر گمشدہ افراد اور انکے رشتہ داروں کے مصائب کو دور کرنے کی کوشش کرنیوالے ڈبلیو جی ای آئی ڈی جیسے بین الاقوامی ادارے اپنے کام کو جاری رکھنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہونگے اگر بلوچستان میں مقبول نمائندگی کا یہ ڈرامہ کامیاب رہا۔
اسٹابلشمنٹ‘ کو شاید اس خوش فہمی میں رہنے کیلئے چھوڑ دیا جائے کہ جو خرگوش اس نے اپنی پٹی ہوئی ٹوپی سے باہر نکالا ہے، ایک شاہکار ہے، لیکن یہ اس طرح سے اپنا کرتب نہیں دکھا پائے گا جتنی کہ وہ اس سے توقع رکھتے ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں ہے کہ سردار اختر مینگل اثر و رسوخ رکھتے ہیں لیکن ان کی مشروط اطاعت نے بہت سے بلوچوں کو ان سے دور کردیا ہے اور ان کے طاقت کی اساس تیزی سے ڈھیہ جائے گی، تاہم شاید بعض لبرل حلقوں میں انہیں حمایت حاصل ہوجائے۔
سوال یہ ہے کہ مینگل کی قیادت والی سرکار رئیسانی کی قیادت والی موجودہ حکومت سے زیادہ بلوچ دوست ہو گی؟ مجھے نہیں لگتا کہ اسکا نصف امکان بھی موجود ہو۔ فوج اور فرنٹیئر کور ماضی کی طرح اپنی حکومت جاری رکھیں گے؛ صرف اختر مینگل کے سابقہ حزب اختلاف کے رہنماء ہونے کے سبب ان کے اقدامات کو زیادہ واضح جواز فراہم ہوگا۔ وہ زیادتیوں کو احترام مہیا کریں گے، اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اپنی بقاء کو یقینی بنانے کیلئے وہ ماضی کی زیادتیوں کیلئے عذر پیش بھی کریں گے۔ وہ اس جمود کو چیلنج نہیں کریں گے کیونکہ نئی نوآبادیت کے رہنما اصول یقینا ابھی تک قائم و دائم ہیں۔ اپنی شاندار کتاب ’ٹِنڈرباکس، پاکستان کا ماضی اور مستقبل‘ میں ایم جے اکبر اسکی وضاحت اس طرح کرتے ہیں، ”نئی نوآبادیت کی دی گئی آزادی کی شرط یہ ہے کہ آپ اس کا استعمال نہیں کریں گے۔“ یہ بالکل اس طرح ہی ہوگا اگر جب کبھی بھی اختر مینگل بلوچستان حکومت کے برائے نام سربراہ بن جائیں۔

مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداء سے ایک تعلق ہے
mmatalpur@gmail.com
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 30 ستمبر، 2012

پارلیمنٹ کی مٹی میں پیوست قبضہ گیریت کی جڑیں
شبیر بلوچ











احساسِ افتادگی و ناامیدی


تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر





ترجمہ: لطیف بلیدی

ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے واضح طور پر کہا کہ ان کا ”حقائق جاننے والا“ مشن فقط ”انسانی“ بنیادوں پر مبنی تھا اور انہیں کسی طور سے بھی ثبوت جمع کرنے کا کام نہیں سونپا گیا .اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ برائے جبری یا غیر رضاکارانہ گمشدگیاں (ڈبلیو جی ای آئی ڈی)، جوکہ چیئرپرسن اولیویئر ڈی فراوولے اور عثمان ال حجے پر مشتمل تھا، اپنے دس روزہ باضابطہ دورے کے اختتام پر انہوں نے ایک مختصر رپورٹ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے تکلیف دہ انداز میں بلوچستان اور دیگر مقامات میں لاپتہ افراد کی حالت زار پر زور دیا کہ، ”زیادہ تر خاندانوں، کہ جن سے ہم ملے ہیں، اپنی کہانیاں بتاتے، افتادگی اور ناامیدی کے احساس میں مبتلا ہیں۔“ وہ خاندان صرف اسی طرح ہی محسوس کرسکتے ہیں جنکے لاپتہ رشتہ داروں کو ریاست کی طرف سے ’غیر رضاکارنہ طور پر غائب‘ کردیا گیا ہو اور جن کیلئے انصاف مہیا ہونے کا کوئی ذریعہ نہ ہو، کیونکہ کوئی بھی ادارہ، یہاں تک کہ اگر وہ چاہے تو تب بھی، اتنا طاقتور یا بے دھڑک اقدام اٹھانے والا نہیں ہے کہ وہ ’جبری اور غیر رضاکارانہ طور پر گمشدگیوں‘ کے ذمہ داران کو چیلنج کرسکے۔ شیخ سعدی گلستان میں ایک حکایت بیان کرتے ہیں۔ ایک بادشاہ کسی ہولناک مرض میں مبتلا ہوگیا اور انہیں انکے حکیموں کی طرف سے کہا گیا کہ صرف مخصوص جسمانی خصوصیات کے حامل شخص کا زردآب آپکے درد کو تسکین پہنچا سکتا ہے۔ بہت تلاش کے بعد، ان کو اس معیار پر پورا اترنے والے ایک کسان کا بیٹا مل گیا۔ اس کے والدین کو طلب کیا گیا اور انہیں مال و دولت دے کر ان کی رضامندی حاصل کی گئی۔ قاضی نے بہ آسانی حکم جاری کیا کہ رعایا میں سے کسی کا خون بہانا جائز ہے، اگر یہ بادشاہ کی حفاظت کیلئے ضروری ہو، اور جلاد نے اپنی تلوار تیز کردی۔ بدبخت لڑکے نے کلبوت پر آسمان کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ حیران بادشاہ نے پوچھا، ”ایسی حالت میں کس چیز نے تمہیں مسکرانے پر اکسایا؟“ نوجوانوں نے دانشمندی سے جواب دیا، ”ایک بیٹا اپنے والدین سے محبت کی توقع رکھتا ہے اور بادشاہ سے انصاف کے حصول کیلئے قاضی کے سامنے ایک درخواست کیساتھ ان سے حفاظت کی توقع رکھتا ہے۔ میرے معاملے میں والدین دنیاوی مفاد کیلئے اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہوچکے ہیں، قاضی نے میرا قتل جائز قرار دے دیا ہے، بادشاہ کو یہ لگتا ہے کہ اس کی نجات میری تباہی پر منحصر ہے؛ لہٰذا، خدا تعالیٰ کی ذات برتر کے علاوہ مجھے اپنے لئے کوئی اور پناہ دکھائی نہیں دیتا۔“
پیشِ کہ بر آورم ز دستت فریاد / ہم پیشِ تو از دستِ تو میخواہم داد
(تیرے متعلق کس کے سامنے فریاد لے جاوں؟ / تیرے متعلق تجھی سے انصاف چاہتا ہوں)
ان دلخراش الفاظ نے بادشاہ کا دل نرم کردیا اور اس نے کہا کہ، ”معصوم خون بہانے سے مرجانا بہتر ہے۔“ اس نے لڑکے کو گلے لگایا اور بے پناہ دولت سے نوازا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر بادشاہ صحت یاب ہوگیا۔
سعدی کی حکایت خوشی پر اختتام پذیر ہوتی ہے، لیکن غیر رضاکارانہ طور پر گمشدہ افراد اور ان کے رشتہ داروں کیلئے ایسی کوئی قسمت نہیں ہے، کیونکہ پوری کی پوری ریاست ان کیخلاف صف آراء ہے اور انہیں چھڑانے کیلئے وہاں کوئی قابل عمل عنصر موجود نہیں ہے۔ وہ ان لوگوں سے تلافی کے طلبگار ہیں جو ان کے مصائب کا منبع ہیں۔ کسی کو بھی ایسی صورت میں ڈال دیا جائے تو قدرتی طور پر وہ اپنے آپ کو ’افتادہ اور ناامید‘ ہی محسوس کر ے گا۔ مذکورہ بادشاہ تو نوجوان کی دردانگیز بات سے متاثر ہوا تھا لیکن یہاں پر تو حکمران ریاست کے ہاتھوں سینکڑوں بلوچ اور دیگر سرگرم کارکنوں کے المناک اور سفاکانہ اموات اور انکے لاپتہ ہونے پر ٹس سے مس نہیں ہوتی۔جیساکہ حکایت میں، بادشاہ کی زندگی نے لڑکے کی موت کا مطالبہ کیا تھا؛ یہاں بھی ویسا ہی ہے۔ ریاست کو یہ لگتا ہے کہ اس کی زندگی داو پر لگی ہوئی ہے اور یہ بات اسے قتل کرنے پر اکساتی ہے۔ لہٰذا، ڈبلیو جی ای آئی ڈی کے وفد نے کہا کہ، ”اس سلسلے میں ہم اعلامیے کے آرٹیکل نمبرسات کی طرف آپکی توجہ مبذول کراتے ہیں جو کہتا ہے کہ ’کسی صورت میں بھی، خواہ جنگ کا خطرہ ہو، حالت جنگ ہو، داخلی سیاسی عدم استحکام یا کسی دیگر عوامی ایمرجنسی کی حالت، جو جبری گمشدگی کو جائز قرار دینے کا جواز پیش کرے، غلط ہے۔‘ ظاہر ہے، یہ قتل قصورواروں کیلئے سزا سے استثنیٰ کے بغیر نہیں کیے جاسکتے؛ سزا سے استثنیٰ مظالم کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔“ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نوی پیلے نے یہاں اپنے دورے کے دوران کہا کہ،”سزا سے استثنیٰ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کیلئے خطرناک حد تک تباہ کن ہے۔“ یہ نہ صرف قانون کی حکمرانی کیلئے تباہ کن ہے بلکہ اخلاقی اصولوں پر مبنی حکمرانی کیلئے بھی تباہ کن ہے۔ سزا سے استثنیٰ قطعی طور پر کسی بھی ہستی کے وجود کے قیام کے جواز کیلئے بھی تباہ کن ہے۔ ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے ’جبری گمشدگی کے جرم پر ایک نئے اور خود مختار ادارے‘ کے قیام کی سفارش کی ہے۔ میں انہیں سادہ لوح تو نہیں کہوں گا جو یہاں ایک تبدیلی کیلئے امید رکھتے ہوں، لیکن تجربہ ایسی امیدوں کو جھوٹی تسلی قرار دیتی ہیں۔
ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ، ”ورکنگ گروپ کو یہ الزامات موصول ہوئے ہیں، ان میں سے کچھ افراد کے ذریعے کہ جن سے ہم ملے تھے، ان کیمطابق انہیں دھمکی دی گئی تھی یا خوفزدہ کیا گیا تھا۔ ہم ریاست سے کہتے ہیں وہ لوگ جو ہم سے ملے ہیں، ان کی حفاظت کی ضمانت دی جائے اور کسی بھی طرح کی انتقامی کارروائی، دھمکی یا انہیں خوفزدہ کرنے کیخلاف ان کی حفاظت کی جائے۔“ اور مزید یہ کہ، ”ڈبلیو جی ای آئی ڈی کو موصول ہونے والی معلومات کیمطابق، جبری گمشدگیوں کا رجحان سیاسی یا انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو نشانہ بنانے کا ایک آلہ بھی ہے، جو کہ قانونی طور پر اپنے اظہار، تعلق اور اجتماع کی آزادیوں کا استعمال کر رہے ہیں۔“ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام کیخلاف تشدد بلا امتیاز اور وسیع پیمانے پر ہے۔ اگر لوگوں کو خوفزدہ کیا جائے، حالانکہ وہ محض اپنی شکایات کے اندراج کے ایک وسیلے کو استعمال کررہے ہوں، مستقبل میں کیا ہوتا ہے، یہ تو صرف وقت ہی بتائے گا۔
ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے واضح طور پر کہا کہ ان کا ”حقائق جاننے والا“ مشن فقط ”انسانی“ بنیادوں پر مبنی تھا اور انہیں کسی طور سے بھی ثبوت جمع کرنے کا کام نہیں سونپا گیا تھا کہ جس سے وہ فوجداری کارروائی شروع کریں، کیونکہ یہ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کے دائرہء کار میں نہیں ہے۔“ لیکن پھر بھی بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا کہ جب لاپتہ افراد کا معاملہ زیر سماعت ہے تو اقوام متحدہ کے وفد کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت کیوں دی گئی ہے؟ یہ بات اس حقیقت کے باوجود کہ اسی سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ، ”ہم اس بیان سے مطمئن نہیں ہیں جیسا کہ ہم اس معاملے کے ہر کیس کی انفرادی طور پر سماعت کر رہے ہیں،“ اور انہوں نے مزید کہا ہے کہ لاپتہ افراد فرنٹیئر کانسٹیبلری کے پاس ہیں اور اس کیخلاف ثبوت بھی موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 1700 تا 1800 واقعات میں سے 1000 واقعات میں ایف سی کے ملوث ہونے کے بارے میں الزامات ہیں۔ یہاں جس طرح سے اس معاملے سے نمٹا جا رہا ہے، اسکی قسمت میں ہمیشہ کیلئے زیر سماعت رہنا لکھا ہے اور مستقبل کے دوروں کیخلاف ’اسٹابلشمنٹ‘ شدید ترین مزاحمت کرے گی کیونکہ یہ انکے غلط کاموں اور کھوکلے پن کو بے نقاب کرکے انہیں ایک عجیب پوزیشن میں لاکھڑا کردیگی۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ جو اپنے آپ کو افتادہ اور ناامید محسوس کررہے ہیں، ویسے ہی رہیں گے: افتادہ اور ناامید۔
آخر میں ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے کہا، ”ایک لاپتہ شخص کی ماں نے ہم سے ان تمام افراد کو یہ پیغام پہنچانے کا کہا ہے جو پاکستان میں عوامی معاملات کے کرتا دھرتا ہیں۔ اس نے پوچھا، ’اگر آپ کا بچہ غائب ہوجائے تو آپ کیا کریں گے؟“‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سوال اس آزمائش کا خلاصہ ہے جس سے یہ خاندان گزر رہے ہیں۔ عزیز قارئین، اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنے کے بعد، ایک لمحے کیلئے ان لوگوں کے درد کے بارے میں سوچیں جو اب بھی لاپتہ ہیں، ان کے بارے میں جن کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئیں، اور کرب میں مبتلا ان کے رشتہ داروں کے بارے میں۔ پھر غور کریں کہ ہماری خاموشی اس ناانصافی کی کتنی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداء سے ایک تعلق ہے
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 23 ستمبر، 2012






ببول کے درخت سے اسٹرابیری کی توقع

تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر

ترجمہ: لطیف بلیدی




ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی گزشتہ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں جبری گمشدگیاں خلاف معمول سطح تک پہنچ چکی ہیں، اور بلوچستان میں عام شہریوں کے اغواء پر تشویش کا اظہار کیا تھا




اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ برائے جبری یا غیر رضاکارانہ گمشدگیاں، جوکہ اولیویئر ڈی فراوولے اور عثمان ال حجے اور دیگر پر مشتمل ہے، خاص طور پر ’جبری گمشدگی‘ اور بنیادی طور پر بلوچستان کی تھرا دینے والی اور کم حد تک صوبہ خیبر پختونخواہ اور سندھ میں انسانی حقوق کی حالت کا جائزہ لینے کے سلسلے میں 10 دن کے دورے نے قومی اسمبلی میں غم و غصہ کی لہر پیدا کی ہے اور اسے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ پیدا کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ کمزور اور غیر محفوظ ملک اور اس کے نمائندے نہیں دیکھے جو ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی بین الاقوامی سطح پر قابل احترام انسانی حقوق کے ماہرین پر مشتمل وفد کی طرف سے خطرہ محسوس کرتے ہوں۔ یہ کوئی ریمبو تو نہیں ہیں۔
بلوچستان پر خصوصی توجہ کیساتھ، اپنے دورے کے دوران، اس وفد کے ارکان کو وفاقی اور صوبائی حکومت کے نمائندوں، سول سوسائٹی اور لاپتہ افراد کے رشتہ داروں سے ملکر جبری طور لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات جمع کرنا اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو رپورٹ پیش کرنا ہے، جو کہ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے متاثرین کی بازیابی کیلئے حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لے گی۔ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی گزشتہ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں جبری گمشدگیاں خلاف معمول سطح تک پہنچ چکی ہیں، اور بلوچستان میں عام شہریوں کے اغواء پر تشویش کا اظہارکیا تھا۔ انہیں فوجی قیادت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے بھی ملنا ہے، لیکن رپورٹوں کیمطابق ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔
قومی اسمبلی میں، ایک جونیئر وزیر، محمد رضا حیات ہراج نے اس مشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ، ”یہ ملک کے ٹوٹنے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔“ انہوں نے اسے ”دفتر خارجہ کی ایک حصے میں ایک ناکامی“ بھی قرار دیا۔ چیف جسٹس نے معاملہ کی زیر سماعت ہونے کی کمزور بنیادوں پر ملنے سے انکار کردیا ہے جبکہ ایف سی بلوچستان کے انسپکٹر جنرل نے ایک مختلف عذر پر ملنے کی درخواست کو رد کر دیا ہے۔ سراسر مالیخولیا اور غیرگریزی نے اسٹابلشمنٹ اور اس کے نمائندوں کو مصیبت میں ڈال دیا ہے لیکن پھر ان سے اور کوئی امید بھی تو نہیں کی جا سکتی جنہیں اپنے کیے گئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مظالم کی جانچ پڑتال کا ڈر ہو۔
اس وفد کے ارکان ان کی تنظیم کی درخواست پر یہاں آئے ہیں۔ آئی اے رحمان نے ایک قومی انگریزی روزنامے (19 جولائی، 2012) میں اپنے مضمون، ”اقوام متحدہ اور لاپتہ افراد“ میں کہا کہ ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے اسلام آباد سے درخواست کی تھی کہ اس کے مشن کو دورے کیلئے 29 ستمبر، 2010 کو مدعو کیا جائے لیکن انکی درخواست دو بار مسترد کردی گئی۔ یہ بات حنا ربانی کھر کے اس دعوے کو بھی جھوٹا قرار دیتی ہے کہ انہوں نے ان کو مدعو کیا ہے۔ وہ اس بات کا مزید مشاہدہ کرنے کیلئے آئے ہیں جو کچھ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمشنر نوی پیلے نے یہاں اپنے دورے کے دوران دیکھا اورسنا۔ اپنے چار روزہ دورے کے بعد، 6 جون کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، ”میں انسداد دہشت گردی اور انسداد بغاوت کی کارروائیوں کے تناظر میں بہت سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات سے فکر مند ہوں.... جن میں ماورائے عدالت قتل، غیرتسلیم شدہ حراست اور جبری گمشدگیاں شامل ہیں،“ اور انہوں نے زور دے کر کہا کہ، ”میں کسی بھی صورت میں عام شہریوں کے بلا امتیاز قتل اور انکے زخمی ہونے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے طور پر دیکھتی ہوں۔“ انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ بلوچستان میں گمشدگیوں نے ”قومی بحث میں ایک خصوصی توجہ، بین الاقوامی توجہ اور مقامی مایوسی“ کی شکل اختیار کرلی ہے اور حکومت اور عدلیہ کو مقدمات کی تحقیقات اور انکے حل کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے بلوچستان اور سندھ کے دورے نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔
انسانی حقوق دفاع کونسل کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے وفد سے ملاقات کی اور 700 افراد کی فہرست پیش کی؛ انہوں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ مقدمات کا اندراج عالمی سطح کے ادارے میں کرائیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ نصراللہ بنگلزئی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے تقریباً 14000 افراد غائب ہو چکے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرپرسن جسٹس (ر) جاوید اقبال نے وفد کو انتہائی بے ادبی اور بیہودگی سے بتایا کہ صرف 29 افراد لاپتہ ہیں۔ اگرچہ لوگوں کو ایجنسیوں کی انتقامی کارروائیوں کا خدشہ ہے، ابھی تک 204 خاندانوں کے افراد بذات خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جو اپنے رشتہ داروں کی بازیابی کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ان لوگوں کو نظر انداز کیا بلکہ تقریباً ان 600 افراد کو بھی جنہیں اغواء اور تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کرکے پھینک دیا گیا، ان لوگوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے جو بلوچ حقوق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انہیں وفود سے ملاقات کیلئے دو گھنٹے کا دورانیہ دیا گیا ہے۔
ڈبلیو جی ای آئی ڈی کا بلوچستان کا متوقع دورہ غیر یقینی سے دوچار ہے کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے شعبہءحفاظت اور سلامتی کی داخلی سیکورٹی رپورٹ اور وزیر داخلہ رحمن ملک کی جانب سے سیکورٹی کلیئرنس پر منحصر ہے۔ یہ دورہ شاید سیکورٹی خدشات کی بناء پر منسوخ کر دیا جائے گا۔
یہ سب کچھ صرف یہ ظاہر کرتے ہیں کہ چیتا کبھی بھی اپنی فطرت تبدیل نہیں کرے گا۔ پاکستانی اسٹابلشمنٹ خود کو رواداری اور جمہوریت کے ایک آوتار کے طور پر پیش کرنے کی جتنی سخت کوشش کر لے، مگر بنیادی طور پر یہ ان کا قطعی متضاد ہے۔ تنوع کیخلاف انکے اندر موجود عدم برداشت اتنی ہی متعصبانہ ہے جتنی کہ یہ نسلی امتیاز پر مبنی ہے، اور یہ اس حد تک ہے کہ کچھ جنرلوں نے بنگالیوں کی شناخت کو ان کے جین کی ’صفائی‘ کے ذریعے تبدیل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ خالد احمد ایک قومی انگریزی روزنامے (7 جولائی، 2012) میں اپنے مقابل ادارتی صفحے میں، ’مشرقی پاکستان میں جینیاتی انجینئرنگ‘ میں میجر جنرل (ر) خادم حسین راجہ کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’اپنے ہی ملک میں ایک اجنبی: مشرقی پاکستان، 1969 تا 1971 (آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2012) سے حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ، ”کمانڈر مشرقی پاکستان جنرل نیازی جوکہ اپنی ویب بیلٹ پر چمڑے کا ایک پستول دان پہنے ہوئے تھے۔ نیازی توہین آمیز بن چکا تھا اور ہذیان بکنے لگا تھا۔ اردو میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں اس حرامی قوم کی نسل بدل دونگا۔ یہ مجھے سمجھتے کیا ہیں۔‘ انہوں نے دھمکی دی کہ وہ اپنے فوجیوں کو ان کی عورتوں پر چھوڑدیں گے۔ ان خیالات کے اظہار پر وہاں ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ اگلی صبح، ہمیں یہ اداس خبر دی گئی۔ ایک بنگالی افسر، میجر مشتاق کمانڈ ہیڈ کوارٹر کے ایک باتھ روم میں چلا گیا اور اپنے آپ کو سر میں گولی مار دی“ (صفحہ: 98)۔
میرے جلاوطن دوست ثناءاللہ بلوچ نے، جب بلوچ کیخلاف مظالم پر بے حسی پر نوحہ کناں ہوتے ہوئے ٹویٹ کیا، ”ارکان پارلیمنٹ خاموش ہیں جبکہ شہری غائب کیے جارہے ہیں اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکا جارہا ہے۔ جب اقوام متحدہ کا معتبر ادارہ اس جرم کے ارتکاب کا نوٹس لیتاہے تو وہ روتے ہیں۔“ اس کے جواب میں، میں نے ٹویٹ کیا، ”یہاں ارکان پارلیمنٹ سے دیکھنے یا مظالم کے بارے میں بات کرنے کی توقع رکھنا ببول کے درخت سے اسٹرابیری کی توقع رکھنے جیسا ہے۔“ بے شک، پاکستان سے بلوچ کیلئے انصاف کی توقع رکھنا اتنا ہی بھولا پن اور بے وقوفی ہے جتنی کہ ببول سے اسٹرابیری کی توقع رکھنا ہے۔ اس بات کو بھی سمجھ لیا جانا چاہیے کہ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کا دورہ بلوچ کی اُفتادگی کو ذرہ بھر بھی تبدیل نہیں کریگی بلکہ اس سے صرف ان کی حالت زار کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔ جس ذہنیت اور رویے کیخلاف بلوچ لڑ رہے ہیں وہ اکڑاہٹ لیے عیاں ہے؛ پاکستان اپنی پسند کا ایک حل نکالنے پر تلا ہوا ہے۔ لیکن اگر بلوچ کے درمیان اب بھی وہ لوگ موجود ہیں جن کا ایمان ہے کہ انتخابات اور آئینی سیاست انہیں ان کے حقوق دلا دیگی، تو ان کیلئے البرٹ آئنسٹائن کا یہ اقتباس، ”پاگل پن کی تعریف یہ ہے کہ ایک ہی عمل کو بار بار دہرانا اور مختلف نتائج کی توقع رکھنا“، مکمل طور پر قابل اطلاق ہے۔

مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداء سے ایک تعلق ہے
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 16 ستمبر، 2012





-->


  نیشنل پارٹی کےاسمگلرنے ایک اعلیٰ

سرکاری افسر کو کیسے کُتے کی موت مارا ؟

خصوصی رپورٹ: قتل سے پاکستان کا ”ہیروئن سرغنہ“ توجہ کا مرکز

کراچی / کوئٹہ | بدھ 5 ستمبر، 2012

  رپورٹ : میتھیو گرین

مترجم : لطیف بلیدی

 

روئٹرز - مارچ کی ایک رات پولیس کو پاکستان کے تجارتی دارالحکومت کراچی کے ایک پوش علاقے میں کھڑی ایک سیاہ رنگ کے ٹویوٹا کے پیچھے ایک لاش پڑی ملی ہے

یہ آدمی ایک ممتاز سرکاری ملازم، جسکا نام عبد الرحمن دشتی تھا، اسے چہرے پر گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کی گھڑی، انگوٹھی اور پیسے غائب تھے۔
تھوڑی سی دوری پر، ملازم ایک شاندار گھر کے صحن سے خون رگڑ کر صاف کر رہے تھے، یہ جنوب مغربی صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک بیوپاری امام بھیل کا گھر تھا۔ کیمرے کے عملے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل شوکت علی شاہ نے مشتبہ قاتل کا نام خود بھیل بتایا۔
الزام نے اس آدمی کے گرد موجود خاموشی کی دیوار میں دراڑیں ڈال دیں، جسے واشنگٹن افغانستان میں پوست کے کھیتوں سے لیکر مغرب کی سڑکوں کے کونے کونے پر ہیروئن کی فراہمی کے چین میں ایک اہم دربان گردانتا ہے۔ 
تین سال قبل، صدر براک اوباما نے بھیل کو بین الاقوامی منشیات کا ایک ”سرغنہ“ نامزد کیا، اس کی درجہ بندی وینزویلا، کولمبیا اور میکسیکو کے منشیات کے آقاوں کیساتھ کی گئی۔ اس اعلان نے پاکستانی میڈیا میں بہت کم توجہ اپنی طرف مبذول کروائی اور پولیس کی پریشانی سے آزاد وہ کراچی میں خاموشی سے رہ رہا تھا۔
گزشتہ سال پاکستان کو سوالات کے ایک سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جب اسامہ بن لادن کو اسلام آباد کے باہر ایک فوجی اکیڈمی کے قریب امریکی حملے میں ہلاک کیا گیا۔
پاکستان میں یا بیرون ملک بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ ملک 68 ارب ڈالر کی عالمی افیمی منشیات کی صنعت میں ایک بڑے مشتبہ کھلاڑی کا مسکن ہے کہ جس نے القاعدہ کی طرف سے کیے گئے حملوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ زندگیاں چھینی ہیں۔
قتل اور بھیل کے سیاستدانوں کیساتھ روابط، سرکار کی رواداری کی حد تک پاکستان میں ہیروئن کی اسمگلنگ اور اسکے تباہ کن اثرات پر کارروائی کی کمی کے سبب جوہری ہتھیاروں سے مسلح غیر مستحکم ریاست پر نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
خاموشی کا پردہ
دشتی کیس قابل ذکر محض سنسنی خیز الزام کی وجہ سے نہیں ہے: ہیروئن گروہ کے مشتبہ سربراہ نے ایک معروف ایڈمنسٹریٹر کو اپنے گھر پر آنے کی دعوت دی اور پھر اسے گولی مار کر ہلاک کردیا۔
دشتی کی موت پر پاکستانی حکام نے جس خاموشی کا خیرمقدم کیا وہ بھی حیرت انگیز ہے۔ بھیل کا نام اسلام آباد میں سفارت کاروں کے درمیان تقریباً نامعلوم ہے، صرف ایجنٹوں کا ایک چھوٹے سا حلقہ منشیات کے اس مبینہ کردار سے واقف ہے۔
ایک مغربی اہلکار نے کہا، ”وہ طویل عرصے سے قانون نافذ کرنےوالے اداروں کی نظروں میں رہا ہے۔ کبھی کوئی اسکے قریب گیا اور اسے چھوا؟ نہیں۔“
بھیل سینیٹروں کا دوست ہے اور اسکا سب سے بڑا بیٹا قومی اسمبلی کا رکن ہے۔ ایک بار بھیل نے خود ایک سیاستدان کی طرف سے مہم چلائی جو کہ طاقتور فوج کے ساتھ منسلک تھی۔
بلوچ ذرائع کا کہنا ہے کہ قتل کے بعد بھیل اپنے آبائی علاقے مکران واپس چلا گیا جو بلوچستان میں بحیرہءعرب کیساتھ ایک ساحلی پٹی ہے۔ بھیل پر دباو ڈالنا تو دور کی بات ہے، اس کیس نے اسکے بڑھتے ہوئے اعتماد کو نمایاں کیا ہے، ایک پاکستانی انٹیلی جنس عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا جو بلوچستان میں خدمات انجام دے چکا ہے۔
انہوں نے کہا، ”وہ وہاں ایک شاہوکار ہے، ایک ڈان ہے۔“
سب سے بڑا خطرہ جسکا بھیل کو سامنا ہے، وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نہیں ہے، بلکہ ایک آزاد بلوچستان کیلئے لڑنے والے باغیوں کی طرف سے ہے۔ گوریلاوں، کہ جنہوں نے کئی دیگر مشتبہ ہیروئن کے اسمگلروں کو ہلاک کیا ہے، الزام لگاتے ہیں کہ بھیل انٹیلی جنس ایجنسیوں کیلئے مخبری کرتا ہے، وہ کہتے رہے ہیں کہ بھیل نے مشتبہ علیحدگی پسندوں کے اغوا، تشدد اور قتل کرنے کی ایک مہم چلا رکھی ہے۔ فوج اسکی تردید کرتی ہے۔
”اس نے ہمارے بھائی کو مار ڈالا“
تبصرہ کیلئے ان کے خاندانی ذرائع سے کی جانیوالی درخواستوں کا بھیل نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بھیل کے سب سے بڑا بیٹے یعقوب بزنجو اس بات سے انکار کرتے ہیں ان کے والد ایک منشیات فروش ہیں اور کہتے ہیں کہ امریکہ نے اپنے اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔
تیس سالہ یعقوب نے، جو قومی اسمبلی کے رکن ہیں، کہا کہ، ”وہ صرف ایک تاجر ہے۔ وہ امیر نہیں ہے۔“
دشتی کے رشتہ دار انصاف کیلئے ایک عوامی مہم چلا رہے ہیں، ان کا غصہ اس حقیقت کے پیش نظر بڑھا ہے کہ دشتی بھیل کو گزشتہ 25 سال جانتا تھا۔ وہ مکران کے ایک ہی علاقے تعلق رکھتے ہیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ دوست ہیں۔
ہمارے نزدیک اس نے حد سے تجاوز کر دیا ہے، اس نے ہمارے بھائی کو مار ڈالا،“ سیاہ وسفید داڑھی والے لاغر بدن فدا دشتی نے کہا، جس نے پہلی بار اپنے بھائی کے قتل کے بارے میں رائٹرز سے کھل کربات کی۔ ”وہ جسے چاہے اسے قتل کرسکتا ہے۔ ہم دوسروں کی طرح چپ نہیں بیٹھ سکتے، ہمیں اپنی آواز اٹھانی چاہئے۔“
جہاں دشتی کے قتل نے اسکے مبسوط خاندان میں ناراضگی پیدا کی ہے، وہاں منشیات کی تجارت میں بھیل کے مشتبہ کردار پر مکران میں کسی خاطر خواہ تبصرے کو نہیں اکسایا ہے، اسمگلروں ایک جنت جہاں جرائم اور تجارت کے درمیان موجود لکیریں دھندلا جاتی ہیں۔
امریکی حکومت کا 1999ء کے سرغنہ ایکٹ کے تحت کی بھیل کو فہرست میں شامل کرنے کے فیصلے نے، جس کا مقصد مشتبہ ”اہم غیر ملکی منشیات کے تاجروں“ اور ان کے کاروباری شراکت داروں کو امریکی بینکوں کے استعمال کرنے پر پابندی لگانا ہے، بہ مشکل ہی کوئی اثر ڈال سکی ہے۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ منشیات میں ملوث ہے،“حاصل خان بزنجو نے کہا، جوکہ ایک سینیٹر ہے اور بھیل کو جانتا ہے، یہ تبصرہ بلوچستان میں ہیروئن کے صنعت کی معمول کے نوعیت کی عکاسی کرتا ہے۔”اس نے یہ بات اپنے قریبی دوستوں کے سامنے تسلیم کی ہے۔“
قتل کے بعد سے پولیس نے تبصرہ کرنے کی درخواست کو رد کر رکھا ہے۔
دشتیوں نے مئی میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے اور تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت کے اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک پولیس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد درخواست مسترد کردی ہے۔ جج پر یہ واجب نہیں ہے کہ وہ اپنے استدلال کی وضاحت کرے۔

افرادی قوت اور رابطے
پاکستان سے متعلق مغرب کے سلامتی کے خدشات زیادہ تر افغانستان میں طالبان کی حمایت کے حوالے سے اس کی تاریخ اور اسکے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کی بابت مرکوز ہیں۔
قتل کیس ایک ایسے دریچے کو کھولتی ہے جس سے خود پاکستان ایک داخلی خطرہ میں گھرا ہوا ہے: منشیات کی رقم کا ایک سیلاب ہے کہ جس سے سیاست داغدار اور حکام بدعنوان ہورہے ہیں اور ایک وسیع غیر قانونی معیشت پھل پھول رہی ہے۔
افغانستان میں پوست کی پیداوار 2001ء میں طالبان کی بے دخلی کے بعد بڑھ گئی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں اس قرمزی پھول کی کاشت تیزی سے کم ہوئی ہے جس سے افیون اور ہیروئن حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستانی گروہوں کے گٹھ جوڑ کا کردار ہیروئن کی تجارت میں مرکزی رہتا ہے، اور انہیں مجرم ٹھہرانا پوست کی کاشت کے خاتمے سے زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق، جنوبی افغانستان کے پوست کے کھیتوں سے لیکر بلوچستان کے مکران ساحل کے سمندری کھاڑیوں تک، سالانہ تقریباً 20 ارب ڈالر مالیت کی عالمی ہیروئن کی فراہمی کیلئے اسمگلروں کو ایک اچھا خاصہ حصہ مل جاتا ہے۔ کارخانہ دار اپنی مصنوعات کے بیگ پر بچھو، شیر یا سانپ کیساتھ اپنے دستخطی علامات کی مہر لگا تے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سالانہ تقریباً 1 ارب ڈالر سے لیکر 1.5 ارب ڈالر کی آمدنی پاکستان میں چند ٹرانسپورٹر کما لیتے ہیں۔ باقی ماندہ کا بیشتر حصہ ایشیا، افریقہ، یورپ اور روس کے منشیات کے دلالوں کو جاتا ہے جو اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے ایک انٹرویو میں کہا کہ، ”ہم اس منشیات کا شکار ہیں۔ ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ منشیات، اسلحہ اور گولہ بارود اور دہشت گرد سرحد پار سے آ رہے ہیں۔“
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ افراد افغان افیون کے استعمال سے مر رہے ہیں، اور یہ اب تک اسلامی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہونیوالوں سے کہیں زیادہ ہے۔ طالبان اور دیگر شورش پسند منشیات کی تجارت سے کم از کم 125 ملین ڈالر سالانہ حاصل کرتے ہیں۔
افیون کی بڑھتی قیمتیں ریکارڈ بلند ترین سطح کے قریب ہیں اور نیٹو افواج کا 2014ء میں افغان فورسز کی حوالگی سے قبل پوست کی کاشت والے علاقوں سے واپسی کے سبب اس صنعت کا مستقبل تابناک دکھائی دیتا ہے۔
ٹرانسپورٹر
بھیل بلوچستان میں ایک اکیلا مبینہ بیوپاری نہیں ہے، بلکہ وہ ان میں سب سے بڑا مانا جاتا ہے۔
پاکستان میں منشیات کی تجارت سے واقف ایک مغربی اہلکار نے کہا کہ”امام بھیل ٹرانسپورٹر ہے۔ اگر لوگ سامان کی بڑی مقدار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کروانا چاہتے ہیں، تو یہی آدمی ہے جو یہ کر سکتا ہے۔ وہ نیٹ ورک، افرادی قوت اور رابطے فراہم کرتا ہے۔“
بھیل کی اپنی زندگی کو ایک دوسرے قتل نے تشکیل دیا ہے، ان کے والد کی۔
ان کے خاندان کا تعلق القلی کی خصوصیات کی حامل قمری منظر والی راکھ رنگ کے پہاڑوں اور دور دراز قصبوں پر مشتمل ایران اور افغانستان کے درمیان واقع بلوچستان سے ہے۔ یہ پاکستان کا تقریباً نصف ہے لیکن 5 فیصد سے بھی کم آبادی کا مسکن ہے، اس صوبے کی صدیوں پرانی اپنی ایک الگ شناخت ہے۔
بلوچ قومپرستوں نے اس علاقے کا 1948ء میں پاکستان کا حصہ بننے کے بعد سے بار بار بغاوت کی ہے، اسلام آباد پر یہ الزام لگایا کہ وہ ان کے قدرتی گیس، تانبے اور سونے کا استحصال کرتے ہوئے انہیں شراکت اقتدار میں منصفانہ حصہ دینے سے انکاری ہے۔
آج علیحدگی پسندوں کی ایک نئی نسل نے بغاوت چھیڑ رکھی ہے جو کہ امریکی حمایت یافتہ فوج کی افغانستان کی سرحد سے ملحق طالبان عسکریت پسندوں کیخلاف الگ جنگ کے سبب دھندلا گئی ہے۔
"ہکلا"
بولنے میں رکاوٹ کے سبب اسے ”ہکلے“ کا لقب ملا، بھیل کا والد اپنے اونٹوں کی قطاروں کیساتھ وہسکی کے غیرقانونی تاجر کے طور پر شہرت رکھتا تھا۔
ان کا کیریئر 1980ء میں اچانک ختم ہو گیا جب ایک پولیس اہلکار نے ایک سڑک کے کنارے ریستوران میں اسے گولی مار کر ہلاک کردیا، اس پر ایک سال قبل اپنی بیوی اور بیٹے کے قتل کا الزام لگایا۔
اپنے والد کی موت نے امام بھیل کو خاندان کے کاروبار کی باگ ڈور سنبھالنے پر اکسایا، ایک ایسے وقت میں جب افغان افیون پیدا کرنیوالے عالمی منڈیوں میں روابط کے حصول کیلئے کوشاں تھے۔
ایران میں طرح طرح سے رخ بدلنے یا بحیرہء عرب میں دھاووں پر منشیات اتارنے سے پہلے، بھاری ہتھیاروں سے مسلح فور بائی فور گاڑیوں کے قافلے بلوچستان کے صحراوں میں دوڑنا شروع ہوئے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ بھیل اپنی عمر کے ساتویں عشرے میں ہے، 1998ء میں وہ حکام کی توجہ کا مرکز اس وقت بنا جب تفتیش کاروں نے اسے مکران میں اغواء ہونیوالے طیارے کا مشتبہ ماسٹر مائنڈ نامزد کیا۔ اگلے سال جب جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کی حکومت کو برخواست کیا تو اسمگلر کے بیٹے نے اسے اپنے نام کو صاف کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھا۔
بھیل نے مکران میں 2002ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست کیلئے پرویز مشرف کی حامی امیدوار زبیدہ جلال کی حمایت کا وعدہ کیا، تاکہ اسکی مدد کے بدلے میں وہ اپنا نام صاف کروالے۔
جلال نے، جوکہ مشرف کی وزیر تعلیم تھی، کہا کہ اس نے بھیل کی حمایت اس یقین دہانی کے بعد قبول کی کہ وہ اب اسمگلنگ میں ملوث نہیں ہے۔
اس نے کہا کہ کئی سال پہلے وہ یہ کاروبارچھوڑ چکا ہے،“ جلال نے رائٹرز کو بتایا۔ ”میں نے اسے چیلنج کیا۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ اسے اپنا پیسہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کیلئے استعمال کرنا چاہئے۔ اس نے کبھی ایسا نہیں کیا۔“
جلال نے کہا کہ نشست جیتنے کے بعد ایک عدالت نے ثبوت کی کمی کے باعث بھیل کیخلاف اغواء کا کیس ختم کردیا۔
بلوچستان میں بہت سوں کے اس خیال کو مزید تقویت ملی ہے کہ حکام ہیروئن کے مشتبہ اسمگلروں کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں، اگر وہ فوج کے سیاسی اتحادیوں کی حمایت کریں۔
صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل نے کہا کہ، ” فوجی اسٹابلشمنٹ ان کی سیاست پر اثر انداز ہونے میں مدد کے بدلے منشیات کے کاروبار پر اپنی آنکھیں موندھ رہی ہے۔ امام بھیل اسکی ایک مثال ہے۔“
طالبان منشیات کی رقم
بھیل کا ستارہ دوبارہ ابھرا جب فروری 2008ء کے انتخابات میں پاکستان میں سویلین حکومت واپس آگئی اور اس کے بیٹے نے قومی اسمبلی کی نشست جیتی۔ اکتوبر میں بھیل کو اس سے بھی بڑا برتحفہ ملا۔
حاجی جمعہ خان، جسکے بارے میں امریکی حکام کا خیال ہے کہ وہ تب دنیا کا سب سے بڑا ہیروئن کا برآمد کنندہ تھا، لالچ میں جکارتہ لایا گیا اور امریکی ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن (ڈی ای اے) کے آپریشن میں گرفتار کر لیا گیا۔
ایڈ فولس، ایک سابق ڈی ای اے ایجنٹ جس نے اس افغان کی گرفتاری کیلئے ڈراما رچایا تھا، نے کہا کہ تفصیلی رپورٹوں کیمطابق بھیل اور دیگر اسمگلروں نے اس خلا کے نتیجے میں مارکیٹ شیئر کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی تھی۔

فولس نے، جوکہ ااس وقت 5 اسٹون انٹیلی جنس کی مشاورت کے ساتھ کام کر رہے ہیں، کہا کہ، ”امام بھیل نے حاجی جمعہ خان کی اسمگلنگ کی سرگرمیوں میں سہولت بہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ خان کے راستے سے ہٹ جانے کے بعد، بھیل نے خود کو وسعت دینے کا موقع ہتھیا لیا۔“

خان طالبان کو منشیات کے پیسے پہنچانے کے الزام میں نیویارک میں مقدمے کی سماعت کا منتظر ہے۔ اس کے وکیل نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ کیس کو حل کرلیا جائے گا، اور وہ آخرکار رہا ہوجائے گا۔

بھیل کے بیٹے یعقوب بزنجو نے کہا کہ انہیں اس بات پر یقین نہیں ہے کہ ان کے والد نے دشتی کو گولی مار کر ہلاک کیا، یا وہ ہیروئن کا ایک بیوپاری ہے۔

 ”اگر وہ منشیات کا ڈیلر ہوتا، تو کیونکر لوگ مجھے 61000 ووٹ دیتے؟“ بزنجو نے یہ بات اسلام آباد میں واقع قانون سازوں کیلئے مختص اپارٹمنٹس میں سے ایک میں کہی، جسکے خمیدہ مضافات بدبخت بلوچ ملک سے ایک دوسری دنیا کی دوری پر ہیں۔
اوباما نے ایک مختلف نقطہء نظر اپنایا۔ مئی 2009ء میں وائٹ ہاوس نے بھیل کا نام منشیات کے مشتبہ ”سرغناوں“ کی فہرست میں شامل کیا جسکے تحت ان پر امریکی پابندیاں لاگو ہونگی۔ امریکی حکومت اس طرح کے فیصلے کے حق میں موجود شواہد کو شائع نہیں کرتی۔ واشنگٹن میں محکمہ انصاف اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے بھیل پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

ایک دوسری دنیا
وائٹ ہاوس کی اس نامزدگی کا مقصد منشیات کے سب سے بڑے مشتبہ اسمگلروں اور ان کے کاروباری ساتھیوں پر جرمانے عائد کرکے یا قید کی سزا دیکر امریکہ کے مالیاتی نظام کو انکی طرف سے استحصال سے روکنا ہے۔
ایک اخبارمیں اس اعلان کے بارے میں جاننے کے بعد بھیل نے حاصل خان بزنجو کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس ”سرغنہ“ والی حیثیت کا مطلب کیا ہے۔ بزنجو، جوکہ نارکوٹکس کنٹرول پر پاکستان کی سینیٹ کمیٹی کا سابق رکن رہا ہے، انٹرنیٹ کا سہارا لیا۔
میں نے اس سے کہا: ’آپ امریکی ایئر لائنز پر سفر نہیں کر سکتے ہیں، آپ امریکی بینکوں کیساتھ کوئی بھی کاروبار نہیں کر سکتے ہیں۔‘ پہلے تو اسے سمجھ میں نہیں آیا۔“ پھر انہوں نے کہا کہ، بھیل نے جواب دیا: ”ٹھیک ہے، میں امریکہ کیساتھ کسی بھی قسم کاروبار نہیں کرتا۔“
اس نامزدگی نے بھیل کے کیریئر پر بہت کم اثر ڈالا۔ 2010ء میں، اس نے نیشنل پارٹی، جوکہ ایک چھوٹی سی پارٹی ہے، جس کا مضبوط گڑھ مکران میں ہے، سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ اس کے رہنماوں میں سینیٹر حاصل خان بزنجو بھی شامل ہیں، پاکستان کے اندر بلوچستان کیلئے زیادہ سے زیادہ حقوق چاہتے ہیں۔ علیحدگی پسند انہیں فوج کے پٹھووں کے طور پر دیکھتے ہیں۔
جب بھیل سیاستدانوں کیساتھ بے جا مداخلت بڑھا رہا تھا تو عبدالرحمان دشتی نے سال ہا سال بلوچستان کے مرکزی دھارے سے دور گزارے۔ وہ آخرکار گوادر ضلع میں سب سے اعلیٰ سرکاری اہلکار بن گیا، جو مکران کے ساحل کے زیادہ تر حصے پر محیط ہے اور ہیروئن کی ترسیل کیلئے ایک اہم خروجی راستہ ہے۔
رشتہ دار اسے ایک سخت مگر خاندان کے اچھے دل والے بزرگ کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں جنہوں نے اپنے بھتیجوں کو اس بات کی حوصلہ افزائی کی کہ ’قلم سے محبت کرو، بندوق سے نہیں۔‘
دشتی اور بھیل کا بلوچ اشرافیہ حلقوں میں میل جول تھا۔ چھوٹی سی داڑھی، ڈھیلی قمیض اور بڑی شلوار جسے بلوچستان میں اکثر لوگ پہنتے ہیں، بھیل سینئر بلوچ حکام کیساتھ آرام سے رہ رہا تھا، جنہوں نے 2006ء میں اس کے بیٹے یعقوب کی شادی کی دعوت میں بھی شرکت کی تھی۔ دشتی مہمانوں میں شامل تھا۔
فدا دشتی نے کہا کہ، ”وہ اثر و رسوخ رکھتاہے۔ یہ بات ایک نابینا شخص پر بھی عیاں ہے۔“
ڈرائیور نے کیا دیکھا
دشتیوں کی مایوسی اس یقین کیساتھ جڑی ہوئی ہے کہ انکے پاس ایک ٹھوس کیس ہے۔ پولیس کے درمیان بھیل کے قاتل ہونے کا یہ نظریہ دشتی کے ڈرائیور کی شہادت پر مبنی ہے جوکہ طویل عرصے سے اسکے ساتھ رہا ہے۔
ڈرائیور کے بیان کیمطابق، جیسا کہ دشتی کے رشتہ داروں نے بتایا، 5 مارچ کی شام کو بھیل نے دشتی کو اس کے موبائل پر فون کیا اور اسے کراچی کے ثروت مند علاقے ڈیفنس میں واقع بی - 30 خیابان تنظیم اسٹریٹ میں اپنے گھر پرطلب کیا ۔دشتی کے اس کے گھر کے احاطے میں پہنچنے سے پہلے، دونوں کے درمیان فون پر ایک گرما گرم بحث ہوئی۔ بھیل چند منٹ بعد پہنچا۔
دشتی نے بھیل سے پوچھا کہ کیا گڑبڑ ہوئی ہے جبکہ دونوں افراد اب بھی کار پورچ میں کھڑے تھے۔ بھیل نے جواب نہیں دیا۔ اسکے بجائے اس نے پستول نکالی اور اسکی پیشانی پر گولی مار دی، دشتیوں کا ڈرائیور کے دہرائے گئے بیان کیمطابق۔
ڈرائیور اس موٹر رکشا میں بھاگ گیا کہ جس نے اسے دشتی کے رشتہ داروں تک پہنچایا۔
تفتیش کاروں کو شک ہے کہ بھیل کے لوگوں نے دشتی کی لاش سے قیمتی اشیاء چرا لئے، اسے اپنی گاڑی میں گٹھڑی کی طرح ڈال دیا گیا، پھر اسے 200 میٹر دور لیجاکر چھوڑ دیا، ایک پولیس ذریعے کے مطابق جو اس کیس سے واقف تھا۔ بھیل کے گھر کی راہداری سے ملازمین کو خون دھوتے دیکھنے پر ان کے شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے۔ واقعہ سے بری طرح دہل جانے کے بعد ڈرائیور کراچی سے بلوچستان فرار ہوگیا۔
ڈپٹی انسپکٹرشاہ، جنہوں نے سب سے پہلے کیس کی تفتیش کی تھی، رائٹرز سے اس بات کی تصدیق کی کہ ڈرائیور نے پولیس کو بتایا کہ اس نے دیکھا بھیل نے دشتی کو گولی ماردی۔ شاہ نے مزید کہا کہ پولیس ایک ہفتے کے بعد بھیل کو گرفتار کرنے کیلئے مکران گئی لیکن اس کا سراغ نہ مل سکا۔
شاہ، جو جون میں ریٹائر ہوئے تھے، نے کہا کہ ”جہاں تک امن و امان کا تعلق ہے تو بلوچستان میں صورتحال بہت پریشان کن ہے۔“
پولیس نے ابتدائی رپورٹ میں بھیل کو اس قتل کا مشتبہ ملزم نامزد کیا ہے، جسے رائٹرز نے دیکھا ہے لیکن اس میں محرک کے طور پر کوئی سرکاری نظریہ پیش نہیں کیا گیا ہے۔ افسران نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا ان کی جوڑی ایک کاروباری معاملے پر ٹوٹ سکتی ہے، جو کہ ممکنہ طور پر منشیات متعلق ہو۔
دشتیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی قیاس آرائی بے بنیاد ہے، لیکن وہ وضاحت کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ کس وجہ سے ان کے خاندان کے سربراہ ہلاک کیے گئے۔
باغی بمقابلہ منشیاتی آقا
بھیل، جسے بلوچستان میں پولیس کا خوف تو کم ہو سکتا ہے بہ نسبت گوریلاوں کے، جنہوں نے منشیات کی اسمگلنگ کیخلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔
بلوچ باغی الزام لگاتے ہیں اس نے اپنے نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے مشتبہ علیحدگی پسندوں کو اغوا، تشدد اور قتل کرنے میں پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں کی مدد کی ہے۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے رہنما اللہ نذر بلوچ، جنہوں نے مکران میں شورشی کارروائیاں تیز کی ہوئی ہیں، نے کہا کہ، ”وہ پاکستانی ایجنسیوں کا ایک اثاثہ ہے۔“
بی ایل ایف کا کہنا ہے کہ اس کے شکوک و شبہات کی بنیاد گاوں والوں کی گواہیوں پر مبنی ہیں جنکا کہنا ہے کہ بھیل کے پیروکاروں نے اس وقت جن افراد کی بابت تفتیش کیلئے ان کے گھروں کا دورہ کیا وہ بعد میں غائب کردیے گئے۔
حالیہ سالوں میں سینکڑوں لاپتہ افراد کی لاشیں بلوچستان بھر میں پھینکی گئی ہیں جسے انسانی حقوق کے گروہ ”مارو اور پھینک دو“ کی پالیسی کہتے ہیں۔ نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ 2011ء کے اوائل سے لے کر مئی تک صوبے میں 300 لاشیں پائی گئی ہیں۔
فوج ان رپورٹوں سے انکار کرتی ہے کہ سیکورٹی فورسز علیحدگی پسندوں کو اغواء کرتے ہیں اور اسکا کہنا ہے کہ خود باغیوں کو منشیات کی رقم حاصل ہورہی ہے۔
میجر جنرل عبیداﷲخان، جو بلوچستان میں فرنٹیئر کور کے سربراہ اور صوبے میں اہم قوت ہیں، نے کہا کہ، ”میں مجرموں کے ساتھ کوئی تعلق برقرار نہیں رکھتا۔“
خان نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اپنے ہیڈ کوارٹر میں رائٹرز کو بتایا کہ، ”اللہ نذر ان اسمگلروں کی طرف سے فراہم کی جانیوالی رقم پر کام کر رہا ہے۔ اسے یہ ہتھیار کہاں سے مل رہے ہیں؟“
پاکستانی انٹیلی جنس افسر نے کہا کہ مجھے اس بات پر شک ہے کہ بھیل ذاتی طور پر سیکورٹی ایجنسیوں کو خبر فراہم کرتا ہو، یہاں تک کہ اگر وہ ان کے ساتھ وسیع صف بندی میں شامل ہو۔ اس نے کہا کہ، ”ہر دوسرا شخص اس معلومات کو فروخت کرنے کیلئے تیار ہے۔ میں بھیل سے کیونکر بات کرونگا؟“
یہ بات تو یقینی لگتی ہے کہ بھیل باغیوں کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ 2009ء میں بی ایل ایف نے بھیل کے بیٹے یعقوب کو ایک پارسل بم بھیجا، جس سے وہ اور کئی دیگر زخمی ہو گئے۔ گزشتہ سال، ان کے جنگجووں نے بھیل گروہ کے ایک اہم رکن کے طور پر مشہور آدمی کو مار ڈالا۔
عبدالرحمان دشتی کے قتل کے چھ ماہ بعد، ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی کی طرف سے پرانے زمانے کی طرز پر بدلہ لینے کے دباو کیخلاف مزاحمت کر رہے ہیں: خون کا بدلہ خون۔ اس کے بجائے، وہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید سپریم کورٹ ان کی درخواست پر نظر ثانی کر لے۔
فدا دشتی نے کہا کہ، ”ہم نے اپنے ذاتی موبائل نمبر انکو دیے ہیں ۔ کسی نے بھی ہمیں فون کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔“

(اضافی رپورٹنگ: واشنگٹن میں ڈیوڈ انگرام اور اسلام آباد میںکیتھرین ہوریلڈ؛ تدوین و ترتیب: بل ٹیرنٹ اور مائیکل ولیمز )

خصوصی رپورٹ: قتل سے پاکستان کا ”ہیروئن سرغنہ“ توجہ کا مرکز


برے بھیڑیے کو بھوکا رکھنا 


تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر


ترجمہ: لطیف بلیدی






وہ لوگ جو برے بھیڑیے کو بھوکا رکھتے ہیں صرف وہی اپنے تئیں پرسکون ہوتے ہیں اور خالصتاً وہی تاریخ کے رخ کا تعین کرتے ہیں

ایک ایسی دنیا میں جہاں مادی مفادات افراد، گروہوں اور ممالک کے درمیان تعلقات پر حاوی ہوں، کوئی خوشگوار انداز سے حیرت میں پڑ جائیگا جب کوئی ان معیارات کو مسترد کرنے کا فیصلہ کرے اور ایسا ایک راستہ اختیار کرے جسے وہ اپنے تصورِدنیا سے قریب تر سمجھتا ہو اور اس کے نزدیک یہی معیارات چھا جائیں اور غلبہ حاصل کرلیں۔ ایسا راستہ اگرچہ باشرف ہے مگر ایک قیمت کی ادائیگی پر ہی ملتی ہے اور ہر کوئی اسکی ادائیگی کیلئے تیار نہیں، کبھی کبھار یہ قیمت انتہائی ہولناک ہوتی ہے لیکن پھر اسکے فوائد بھی روحانی طور پر متاثر کن ہوتے ہیں ۔ میر تقی میر کا کہنا ہے کہ، ”بے پروائی درویشی کی تھوڑی تھوڑی تب آئی /جب کہ فقیری کے اوپر میں خرچ بڑی سی دولت کی۔“

یہ درحقیقت ایک ایسا معاملہ ہے کہ کوئی زندگی اور اس کے اجر کو کس طرح دیکھتا ہے۔ لوگ عام طور پر ان بہکاووں کا شکار ہوجاتے ہیں جو زندگی انکے سامنے لاتی ہے، جبکہ دوسرے صرف مواقع کی کمی کے سبب بچے رہتے ہیں؛ تاہم کچھ لوگ شعوری طور پر ان بہکاووں کیخلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ دیانتدار، بااصول اور عزم کے پابند لوگ آسانی سے تحریص کیخلاف مزاحمت کرلیتے ہیں۔ ایک چیروکی دیسی امریکی کی کہانی اس کی وضاحت کرے گی۔ ایک نوجوان لڑکے نے اپنے دادا سے پوچھا کہ وہ کس طرح سے ایک اچھا آدمی بن گیا۔ اس کے دادا نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا، ”میرے اندر دو بھیڑیے ہیں، اور اسی طرح سے تمہارے اندر بھی۔ ایک بھیڑیا رحمدل، مہربان، فراخدل، بے لوث، اور بہادر ہے، جبکہ دوسرا برا، پرتشدد، خودغرض، تباہ کن اور سنگدل ہے۔ وہ آپس میں لڑرہے ہیں اور دونوں تب تک نہیں رکیں گے جب تک کہ ان میں سے کوئی ایک نیست و نابود نہ ہوجائے۔“ لڑکا سہما ہوا لگتا تھا اور ایک مایوس کن لہجے میں التجاء کی، ” لیکن دادا، ان میں سے کون جیتے گا؟“ دانا شخص نے اپنے پوتے پر گہری نگاہ ڈالی اور کہا، ”وہی جسے میں کھلاوں گا۔“

یہ پوری زندگی کی جدوجہد ہے۔ کچھ مزاحمت کرتے ہیں جبکہ کچھ برے بھیڑیے کا شکار ہوجاتے ہیں، اور وہ لوگ جو شکار ہوجاتے ہیں، گوکہ یہ افسوس کی بات ہے کہ ان کو تاریخ ہمیشہ تعظیم و تکریم دیتی ہے اور ان کے بت تراشتی ہے، جبکہ وہ لوگ جو برے بھیڑیے کیخلاف مزاحمت کرتے ہیں عام طور پر لوگوں کی طرف سے مسترد کردیے جاتے ہیں، اُس گلیمر کی کمی کی وجہ سے جس میں برائی ملبوس ہوتی ہے، اگرچہ یہ سطحی اور دکھاوے کی گلیمر عارضی ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو برے بھیڑیے کو بھوکا رکھتے ہیں صرف وہی اپنے تئیں پرسکون ہوتے ہیں اور خالصتاً وہی تاریخ کے رخ کا تعین کرتے ہیں۔

کیوبا کے شوقیہ باکسر تیوفیلو اسٹیونسن لارنس (29 مارچ، 1952 تا 11 جون، 2012) ان تین باکسروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے تین اولمپک کھیلوں میں طلائی تمغے جیتے۔ دیگر دو ان کے آشرت ہیں، ایک ہموطن کیوبن فیلکس ساوون اور دوسرا ہنگری کے لاسزلو پاپ۔ اسٹیونسن مشرقی کیوبا کے صوبے لاس توناس میں ایک منکسرالمزج خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ سابق قومی لائٹ ہیوی ویٹ چیمپئن جان ہیریرا کی سرپرستی تھی کہ جس کے تحت نوجوان اسٹیونسن نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا، اپنے سے زیادہ تجربہ کار باکسروں سے لڑے، اور ہیریرا کے مطابق اس، ”کے پاس وہ تھا جسکی اس ہنر کو ضرورت تھی۔“ انہوں نے 14 سال کی عمر میں اپنا پہلا میچ میں لڑا؛ دو سال کے بعد، انہوں نے وسطی امریکی اور کیریبین چیمپئن شپ میں اپنا پہلا بین الاقوامی ٹائٹل جیتا۔ کیوبا کی حکومت کے مالی تعاون سے چلنے والی نیشنل باکسنگ کمیشن کے تحت ان کی صلاحیتیں نکھریں جہاں روسی کوچ آندرے چیروونینکو نے انہیں اپنی شاگردی میں لیا اور ان کی قدرتی قابلیت کو مزید نکھارا۔ اپنی قابلیت کے سبب انہوں نے 1970 کے وسطی امریکی چیمپئن شپ کیلئے قومی ٹیم میں جگہ حاصل کی جہاں انہوں نے مخلوط قسمت کے باوجود خود کو کیوبا کے اول درجہ ہیویویٹ کے طور پر منوا لیا۔ برلن میں مشرقی جرمنی کے برنڈ آنڈرن پر آسان فتح سے انہیں ہیوی ویٹ ٹائٹل کیلئے ایک سنگین مدمقابل کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ 20 سال کی عمر میں انہوں نے 1972 کے میونخ اولمپکس میں شرکت کی اور شدید مشکلات کے بعد کوارٹر فائنل میں پسندیدہ امریکی باکسر ڈوین بوبک کو شکست دی۔ سیمی فائنل میں جرمن باکسر پیٹر ہسنگ کو آسانی سے شکست دینے کے بعد، فائنل میں وہ بلا مقابلہ جیت گئے کیونکہ رومانیہ کے آیون ایلیکس چوٹ لگنے کے سبب فائنل میں آنے سے قاصر رہے۔ کیوبا نے وہاں تین سونے تمغوں کے ساتھ ساتھ ایک چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ جیتے۔




اسٹیونسن اپنی فتوحات کے بعد 1974 میں ہوانا کیوبا میں منعقد ہونیوالی عالمی چیمپئن شپ کی افتتاحی تقریب میں کیوبا کے ایک قومی ہیرو بن گئے، اور اسکے بعد 1976 میں مونٹریال کی اولمپکس میں بھی۔ ان کی شہرت اب صرف کیوبا تک محدود نہیں تھی اور یہ وہ وقت تھا کہ جب پروموٹروں کو انکے اور افسانوی نوعیت کے حامل محمد علی کے درمیان ایک مکیباز کی تلاش تھی۔ کیوبا میں پیشہ ور کھیل پر پابندی عائد تھی اور اس مکیبازی کو ایک حقیقت بنانے کیلئے، وہ یا تو کیوبا چھوڑ دیتے یا ایک پیشہ ور بن جاتے۔ امریکی باکسنگ پروموٹروں نے انہیں ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئن محمد علی کو چیلنج کرنے کیلئے پانچ ملین ڈالر کی پیشکش کی، لیکن انہوں بڑی رقم کی پیشکش پر لالچ کے بہلاوے میں آنے سے انکار کردیا، ان دنوں میں جب ملینیئر یا بلینیئر کی بھرمار نہیں تھی۔ انہوں نے اس پیشکش سے انکار کر دیا اور سوال کیا کہ، ”اسّی لاکھ کیوبائی عوام کی محبت کے مقابلے میں ایک ملین ڈالر کیا ہے؟“ بنیادی طور پر ایک عظیم انسان اور بھوسے سے بنے ایک شخص کے درمیان یہی فرق ہے۔ ہمارے ہاں موخرالذکر قسم کی بہتات ہے۔
اسٹیونسن نے نو تمغے جیتے جن میں سے آٹھ طلائی اور ایک کانسی کا تھا۔ انہوں نے اولمپکس میں تین طلائی تمغے جیتے، آخری تمغہ 1980ء میں ماسکو میں جیتا۔ انہوں نے ورلڈ ایمیچرچیمپئن شپ میں تین طلائی تمغے جیتے، آخری 1986 میں سپر ہیوی ویٹ کلاس میں جیتا۔ انہوں نے ایک کانسی کا تمغہ جیتا، یہ 1971 میں انکا سب سے پہلا تھا، اور پین امریکن گیمز میں دو طلائی تمغے جیتے۔ ان کی زندگی کے دو اساسی اجزاء یہ تھے کہ کیوبا میں ان سے حد سے زیادہ محبت کی جاتی تھی اور انہیں کیوبا سے محبت تھی۔ غیر مشروط محبت کے بغیر، کاوشیں مطلوبہ نتائج کبھی نہیں دیتیں۔ اسٹیونسن کے انتخاب کی رہنمائی ان کے اور کیوبا کے درمیان باہمی محبت نے کی۔ اسٹیونسن 1988ء میں 302 جیت اور 22 ہار کے ایک شاندار ریکارڈ کیساتھ ریٹائر ہوئے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ تاریخ میں جابر، بدمعاش، رنگین مزاج، کمینے اور بددیانت لوگوں کو اکثر نمایاں جگہ مل جاتی ہے جبکہ تیوفیلو اسٹیونسن جیسے ہیرو آخری صفحات کے حوالے کردیے جاتے ہیں۔ پاپا ڈوک ڈوالیئر کو تیوفیلو اسٹیونسن سے بہتر طور جانا جاتا ہے۔ تاریخ کو مسخ کرنیوالے، لوگوں کیلئے ضروری رول ماڈل کے طور پر، چے گویرا اور اسٹیونسن جیسے افراد کو ان ادوار کیلئے جتنا زیادہ غیر اہم گردانتے ہیں، ان کی مطابقت اور پروجیکشن کی کوشش اتنی زیادہ اہم ہو جاتی ہے ۔
مقصد یا تحریک کیلئے وقفیت خالص اور بلاآمیزش ہونی چاہئے؛ یہ کبھی بھی ذاتی مفاد یا ذاتی فوائد سے داغدار یا آلودہ نہیں ہونی چاہئے۔ عام طور پر تحریکوں کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ کچھ افراد نے ان کا استحصال کیا ہے جنکا بنیادی مقصد محض اپنے آشیانے کی تعمیر رہا ہے۔ یہ ایک ناقابل معافی گناہ ہے اور شہداء کے خون سے فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے، اسے کبھی برداشت نہیں کرنا چاہئے۔ مقصد کیلئے محبت خالص اور بلامعاوضہ ہونا چاہئے۔ اگر یہ محرکات سے داغدار ہو تو یہ ایک گھناونا جرم ہے۔ شیخ سعدی کا کہنا ہے کہ، ”خلافِ طریقت بود کہ اولیاء/ تمنا کند ازخدا جز خدا (پارسا جو کہ متلاشی ہو خدا کا پارسائی کو پراگندہ کردیتا ہے)۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداء سے ایک تعلق ہے
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 9 ستمبر، 2012

یو این کے ورکنگ گروپ کو بلوچوں کے لاشوں کا تحفہ پاکستان کے ہٹ دھرمی کی شرمناک مثال ہے۔حیر بیار مری










گفتن از زنبور

تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر

ترجمہ: لطیف بلیدی


اصولی طور پر، سماج اور میڈیا عموماً غلطی سے اسٹالن سے منسوب اس قول پر یقین اور اسکی تقلید کرتے ہیں: ”کسی ایک شخص کی موت ایک المیہ ہے؛ لاکھوں کی موت ایک اعداد و شمار ہے‘‘۔

کسی معاشرے کی پہچان اور تشخیص اسکی اقدار اور آدرشوں سے منسوب اس کے عمل اور رواج کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں ویلنٹائن کا دن لاپتہ افراد کے بین الاقوامی دن یا تشدد کیخلاف بین الاقوامی دن کے مقابلے میں زیادہ جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ ریاست کے پاس تو یقینا اور عوام کی اکثریت کے پاس شاید اس بات کی معقولیت کا معیارِ اصول موجود ہی نہیں جو ان کے اندر لاپتہ افراد کیلئے یا ان کے رشتہ داروں کے کرب کیلئے ہمدردی پیدا کرے۔ پس، 30 اگست کو منائے جانیوالے لاپتہ افراد کے بین الاقوامی دن کے موقع پر جتنے روزنامے میں نے پڑھے، ان میں سے ایک میں بھی کوئی اداریہ اس بابت نہیں تھا۔ شاید انہوں نے اسے اتنا اہم موقع تصور نہیں کیا تھا کہ یہ کوریج کے قابل ہو جتنا کہ پانی والی کار جیسے ڈرامے کمان کرتے ہیں یا وہ اہمیت جو ویلنٹائن ڈے کو مل جاتی ہے۔ یہ بات دوسروں کی تکالیف کے حوالے سے سماج کی بے حسی کو عیاں کرتی ہے۔ تاہم اس اداس دن کو بلوچستان میں منایا گیا اور بلوچ تارکین وطن نے غیر ملکی دارالحکومتوں میں احتجاج منظم کرکے منایا۔





شیخ سعدی کی یہ نظم اس بے حسی کی وضاحت کر سکتی ہے:



تندرستاں را نباشد دردِ ریش

جز بہ ہمدردے نگویم دردِ خویش

گفتن از زنبور بے حاصل بود

با یکے درعمرِ خود ناخوردہ نیش




تا ترا حال نباشد ہمچو ما
حالِ ما باشد ترا افسانہ پیش
تندرستوں کو زخم کے درد کا احساس نہیں ہوتا
میں دل دکھے سے ہی اپنا درد کہوں گا
بھڑ کی بات کہنا بے کار ہے
اُسے جس نے عمر بھر اک بھی ڈنک نہ کھایا ہو
جب تک تیرا حال بھی ہماری طرح نہ ہو
ہمارا حال تیرے سامنے افسانہ ہی ہوگا)
تاہم حقیقت تو یہ ہے کہ اگر آپ دوسروں کے درد کو محسوس نہیں کرتے ہیں تو آپ ٹھیک حالت میں نہیں ہیں۔ جبری طور پر لاپتہ ہونیوالے افراد اور ان کے رشتہ داروں کیساتھ ہمگدازی اسی وقت ہی پیدا ہوسکتی ہے جب کوئی خود ان کی مشکلات کو دیکھے یا میڈیا کے ذریعے اسے معلوم ہو۔ لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کے ساتھ ذاتی رابطے خطرناک ہیں، چونکہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ان کے ہمدردوں اور حامیوں کو جاننے کیلئے ان پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں جو تقریباً گزشتہ 900 دنوں سے ایک ٹوکن بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لوگ اٹھائے گئے ہیں اور حمایت ظاہر کرنے پر انہیں دھمکیاں بھی دی گئی ہیں۔ جہاں تک میڈیا کا سوال ہے تو اس نے بہ آسانی لاپتہ افراد کی حالت زار کو نظر انداز کیا ہوا ہے، جو کہ انتہائی افسوس ناک بات ہے، اگر کم سے کم کہا جائے تو۔
ظاہراً، اصولی طور پر، سماج اور میڈیا عموماً غلطی سے اسٹالن سے منسوب اس قول پر یقین اور اسکی تقلید کرتے ہیں: ”کسی ایک شخص کی موت ایک المیہ ہے؛ لاکھوں کی موت ایک اعداد و شمار ہے۔“ یہ بہت تکلیف دہ انداز سے ان کے رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ رِمشا مسیح کو بطور استحقاق سول سوسائٹی اور میڈیا کی حمایت حاصل ہوئی لیکن بدقسمتی سے وہ ہزاروں جو لاپتہ ہیں، اور وہ سینکڑوں جو بلوچستان میں مارے گئے ہیں، محض اعداد و شمار ہیں، جو سول سوسائٹی کی ہمدردی یا میڈیا میں ذکر کے قابل نہیں ہیں، یہاں تک کہ لاپتہ افراد کیلئے بین الاقوامی دن کے موقع پر بھی نہیں۔ انسانی تکالیف کو محض اعداد و شمار بننے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور جہاں کہیں بھی یہ صرف اعداد و شمار بن جائیں تو یہ اس معاشرے کیلئے مہلک ثابت ہوتی ہیں۔
بین الاقوامی معاہدہ برائے تحفظ کل اشخاص از جبراً گمشدگی (آئی سی سی پی ای ڈی) 20 دسمبر، 2006 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے منظور کی گئی۔ 91 میں سے 32 دستخط کنندہ ریاستوں نے اسکی توثیق کی ہے یا اسے مان لیا ہے۔ پاکستان نے اب تک اس پر دستخط کرنے سے انکار کیا ہوا ہے اور ہمیشہ کی طرح اس بات کا امکان بہت دور لگتا ہے کیونکہ اب بھی بلوچستان میں انکا کچھ نامکمل کام موجود ہے۔
جبراً یا غیر رضاکارانہ گمشدگی پر اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ کا ایک وفد 10 تا 20 ستمبر کو پاکستان کا دورہ کرے گا۔ امید ہے کہ یہ تیسری بار کامیابی سے ہمکنار ہوجائے کیونکہ پہلے ہی سے دو بار اس کا دورہ منسوخ کیا جاچکا ہے اور جب تک کہ یہ امر اصل میں حقیقت بنے، اس کی قسمت غیر واضح ہی رہے گی۔ ظاہر ہے، پاکستان کو اس طرح کے دوروں سے خدشہ ہے کیونکہ لاپتہ افراد کے رشتہ دار وہ ثبوت پیش کریں گے جو کہ یقینی طور پر فرنٹیئر کور اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو انکے لاپتہ کرنے اور بعد ازاں ان کی تشدد زدہ لاشیں پھینکنے کیلئے ذمہ دار ٹھہرائیں گی۔ سپریم کورٹ کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ جس نے مندرجہ بالا اداروں کو ان گمشدگیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
ایچ آر سی پی کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں صورتحال کافی خراب ہو چکی ہے۔ اتفاق سے، انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹ کو پاکستان ایک سازش کے حصے کے طور پر مسترد کرتا ہے اور اکثر مظالم ڈھانے کیلئے جواز کے طور پر بغاوت کو ایک غیر معمولی حالت گردانتا ہے۔ یہ بات موزوں طور سے قابل توجہ ہے کہ جبری گمشدگی، غیر معمولی حالات میں بھی، جیسا کہ حالت جنگ یا جنگ کا خطرہ، اندرونی طور پر پایا جانے والا سیاسی عدم استحکام یا کسی دیگر عوامی ایمرجنسی کے دوران، مناسب طریقہء کار کے بغیر، انسانیت کیخلاف جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
بلوچستان میں موجودہ حالات اسلئے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ ایک ہٹ دھرم ریاست بلوچ عوام پر پربا ہوئی ہے کہ جس نے انہیں اپنے حقوق اور وسائل سے محروم کررکھا ہے اور مسلسل اختلاف رائے کو کچلنے کی کوشش کر رہا ہے کہ جس میں اس کے غیر قانونی اعمال نے اضافہ کردیا ہے۔ 27 مارچ، 1948 کے بعد سے، بلوچ اپنے غصب شدہ حقوق کے دوبارہ حصول کیلئے جدوجہد کررہے ہیں اور اپنے وسائل کے غیرقانونی استحصال کو روکنے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور اپنے حقوق کے دفاع کیلئے ایک بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر دنیا اور یہاں کے لوگ ریاست کے مظالم پر خاموش تماشائی بنے رہے ہیں اور اس سے ریاست کی سزا سے مستثنیٰ ہونے پر نا انصافیوں کا ارتکاب کرنے کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
بلاشبہ بلوچ کو پاکستان کی اس جبری گمشدگی اور قتل کی منظم ’غلیظ جنگ‘ سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے، جسکا مقصد بلوچ آزادی کے حق کیلئے چلنے والی مقبول تحریک کو کچلنا ہے۔ اب سندھیوں کو بھی اکثر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے لوگوں کو بھی لاپتہ افراد میں سے ان کا حصہ ملا ہے اور لوگ باقاعدگی سے حراست میں ہلاک ہورہے ہیں؛ اب تک 122 ہلاک ہو چکے ہیں۔
ذاکر مجید، جسے 8 جون، 2009 کو مستونگ سے اغوا کیا گیا تھا، ابھی تک لاپتہ ہے۔ منشی محمد بخش بلوچ، ایک 75 سالہ کسان، 20 جون کے بعد سے لاپتہ ہے اور میرا ایک سابق شاگرد، ڈاکٹر اکبر مری، 2010 کے بعد سے لاپتہ ہے۔ فہرست لامتناہی طور پر طویل ہے جیساکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں جبکہ ان میں سے 600 کے قریب اب لاپتہ نہیں رہے کیونکہ ان کی تشدد زدہ اور مسخ شدہ لاشوں کو پورے بلوچستان میں پھینکا گیا ہے، ان لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کیلئے جو ریاست کی بالادستی کی مخالفت کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
لاپتہ افراد کی کہانی میرے لئے ایک ذاتی معنی رکھتی ہے کیونکہ میرے 16 سابق شاگرد، جنہیں میں نے افغانستان میں ہمارے طویل قیام کے دوران پڑھایا، انہیں اغواء کیا گیا اور ان کی بری طرح سے تشدد زدہ لاشیں پھینکی گئیں۔ پاکستانی ریاست نے بلوچ عوام کیخلاف ایک کھلی غلیظ جنگ چھیڑ رکھی ہے اور کوئی بھی اس کے مظالم سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ پہلے ہی خطرے میں گھرے ہوئے بلوچ حقوق کیلئے سب سے زیادہ سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ اختلاف رائے، تاہم کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، اس کے سنگین نتائج ہوتے ہیں اور یہ وہاں کی سیاسی، اقتصادی اور سماجی زندگی کے تمام پہلووں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بلوچ کیلئے جبری گمشدگیاں ایک ایسا معاملہ ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور اس عمل کو ختم کرنے کیلئے واحد راستہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس غلامی کو ختم کیا جائے جوکہ نہ صرف انہیں زنجیروں جکڑے ہوئے ہے بلکہ انکے مخصوص مقصد کے حصول کے سبب مسلسل ان کی زندگیاں بھی چھین رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ناانصافیوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی خاطر وہ حتمی قیمت ادا کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔

مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداء سے ایک تعلق ہے
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 2 ستمبر، 2012

گناہِ کامل خوشدلی سے کرنا
تبصرہ میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ لطیف بلیدی 

انتہائی حد تک غیر انسانی فرقہ وارانہ حملوں کے بعد قابل نفرت اور قابل مذمت مسرّت اور شماتت کا اظہار انسانی وقار کی مکمل توہین ہے
تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی کہ جس نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ ریاست نے جان بوجھ کر اپنے مذہب کی برتری کے رجعت پسندانہ نظریے کو تقویت اور فروغ دیا ہے اور بنیاد پرستی کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ مذہبی رواداری، شہری آزادیوں اور اخلاقیات کے کمزور وجود کو نگل لے۔ ان رجحانات کو اسلئے نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ وہ اپنے مذہبی قوم پرستی کے نظریے اور تشخص کو مسلط کرنا چاہتے تھے، جبکہ ان رجحانات میں شناخت اور خیالات کے وہ بیج تھے جو کہ اس تباہ کن نظریے کے بالکل برعکس تھے۔ اپنے اس نظریے اور شناخت کو فروغ دینے کیلئے اسے فوری طور پراور شدت کے ساتھ ان قومیتوں اور اقلیتوں کی ثقافت، تاریخ، زبانوں اور آزادی کو کچلنے کی ضرورت پڑی جو کہ اس ریاست کے قیام سے قبل صدیوں سے یہاں آباد تھے۔                                                                            
وہ جانتے تھے کہ اپنے نظریے کے نفاذ کے بغیر قدیم اقوام اس کی سیادت اور غیر قانونی حکمرانی کیخلاف مزاحمت کریں گے، تلقین نگاروں نے والٹیئر کی فکر کا اصول اپنایا: ”وہ لوگ جو آپ کو خرافات پر یقین دلا سکتے ہوں آپ سے مظالم کا ارتکاب کروا سکتے ہیں۔“ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ اکثریت ان خرافات پر یقین کرلیں، جنہیں وہ سچ کے طور پر پیش کرتے ہیں، انہوں نے 12 مارچ، 1949 ء کو قراردادِ مقاصد منظور کی، جس نے ایک ایسے ریاست کے قیام کی ضمانت دی جو کہ مقتدرہ کے نظریے کی حامی ہو۔ ریاست نے بے رحمی اور مستقل مزاجی سے منبر، پریس، تعلیمی نظام اور جبر کے تمام آلات و اوزار کا استعمال کیا، یعنی کہ فوج، پولیس اور بیوروکریسی کو انہیں لاگو کرنے کیلئے۔ اپنے ان لامحدود وسائل پر اختیار کیساتھ، وہ نہ صرف مخالفانہ نظریات، رجحانات، خیالات اور ثقافتوں کو غیر اہم گرداننے میں کامیاب رہے بلکہ ان خیالات اور تحریکوں کو بھی دبانے میں کامیاب رہے جوکہ سب سے زیادہ محرک تھیں۔                                                                                                
تلقین نگاروں نے منظم طریقے سے لوگوں کو اس خودساختہ قوم پرست نظریے سے بھر دیا ہے جو مذہب کی بیساکھی کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتی۔ تنوع سے وہ نفرت کرتے اور اسکی سرزنش کرتے تھے۔ چالاکی سے اسلام کا نعرہ استعمال کرتے ہوئے، انہوں نے بلوچ کو اپنے حقوق سے محروم کیا اور بنگال کو اس کی زبان کے شہداء دیے۔ بلوچ، بنگالی، سندھی اور اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہریوں کے طور پر خارج البلد کردیا گیا جبکہ ان لوگوں کو بھرپور طریقے سے نوازا گیا جو ریاستی نظریے کی پیروکاری کرتے تھے۔ اس طرح سے ان سب کے بیج بوئے گئے جسکی فصل آج کاٹی جارہی ہے۔ یہ ایک معجزہ ہوتا اگر اسٹابلشمنٹ کی اسلام کے نام پر سرگرم اور وقف شدہ کوششوں سے قوموں اور فرقوں کے درمیان بوئے گئے اختلافات کے بیج سے ایک روادار معاشرہ ابھر کر سامنے آتا۔                                                                  
ان کی ایک ہم قطع نظریات پر مبنی ایک ہم قطع ریاست تخلیق کرنے کی کوشش کے نتیجے میں قومی خواہشات، مذہبی آزادی اور تنوع کی تمام توضیحات اور اظہار کیخلاف عدم برداشت بڑھی ہے۔ اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے، پاکستانی ریاست نے لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں نفرت، عدم برداشت اور تعصب بو دیے ہیں۔ اس ضرر رساں نارواداری نے فوجی آپریشنوں، بلوچ اور سندھیوں کے اغواء اور قتل، فرقہ وارانہ خودکش بم دھماکوں، فرقہ وارانہ قتل عام، مبینہ طور پر توہین رسالت کے کمزور الزامات کے تحت ہجوم کے ہاتھوں قتل، اقلیتوں کے حقوق کی تخفیف، جبری طور پر مذہب کی تبدیلی اور اقلیتوں کے خروج اور بیدخلی میں اپنا اظہار کیا ہے۔                                                  
کوئی بھی شخص قومیتوں اور اقلیتوں کیلئے رواداری کو پنپنے کی توقع نہیں کر سکتا جبکہ دی جانیوالی تعلیم نہ صرف جانبدار ہے بلکہ بے شرم حد تک نسل پرست، جارحانہ اور متعصب ہے۔ 1947 کے بعد سے تعلیم حاصل کرنیوالی نسلوں کو سرکاری مذہب کی برتری باور کرائی گئی ہے اور تمام سرکاری بیانات و روایات اکثریتی فرقے کی برتری کی بابت ہیں۔ عرفان حسین نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ کاکول فوجی اکیڈمی میں نوجوان افسروں کو دوسری چیزوں کیساتھ ساتھ یہ ترغیب دی جاتی ہے ”عام تصور کہ ایک مسلمان فوجی 10 ہندووں کے برابر ہے۔“ جن لوگوں کو اس طرح سے ترغیب کی گئی ہو تو فطری طور پر وہ دوسروں پر بھی یہی فکر تھونپیں گے۔ مزید برآں، مولوی کو، جو کہ ریاست کا فطری اتحادی ہے، اسے خوشحال ہونے، فائدہ اٹھانے اور نفرت کو فروغ دینے کیلئے کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ بنگلہ دیش میں بنیاد پرست قوم پرستوں سے لڑے اور بنگالیوں کیخلاف ریاستی مظالم میں حصہ لیا۔ بلوچستان میں بھی فوج اور فرنٹیئر کور اسلام کو اپنا محرک ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔                                                                                    
حکمرانوں کا دوسروں پربرتری کادعویٰ اپنے کسی کارنامے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ محض اسلئے ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اگرچہ اس امر نے عرب تضحیک کو بھی مدعو کیا ہے جو یہ پوچھتے ہیں کہ کسی پاکستانی کا الحمرا یا الجبرا میں کیا حصہ داری ہے، مگر پھر انہوں نے فخریہ طور پرخود کو عربوں کے گزشتہ کارناموں کے ساتھ مشخص کردیا ہے۔ سعودی عرب کے انعام و اکرام کے شکرگزار، انہوں نے اسکے تعبیر کردہ اسلام کو اپنا لیا ہے۔ اسلام سے اپنی فاداری کو ثابت کرنے کی کوشش میں، عرب دنیا کا لاڈلا بننے کیلئے، انہوں نے انتہا پسندی کو اپنایا، جوکہ ’اسٹراٹیجک اثاثوں‘ کے پیدا کرنے اور دہشتگردی کے برآمدکنندگان، خودکش بمبار اور فرقہ وارانہ قاتلوں کی ایک پناہ گاہ کے طور پر انسانیت کیلئے ایک لعنت بننے پر منتج ہوئی ہے۔                                           اقلیتوں پر ظلم و ستم ڈھانے اور فرقہ وارانہ آگ کو ہوا دینے کے نتیجے میں قومیتوں پر بھی ظلم اور جبر ہوا جو کہ فطری طور پر اسکا منطقی نتیجہ تھا۔ زیادہ تر لوگوں نے، بشمول اقلیتوں کے، اسلام کے نام پر بلوچ، بنگالی اور سندھیوں پر ظلم اور جبر کی مخالفت نہیں کی، اس حقیقت سے غافل کہ یہ امر ان کیلئے بھی اسی طرح کے سلوک کا پیش خیمہ تھی۔ سب کو پادری مارٹن نیمولرکے اقتباس کی طرح: ”سب سے پہلے وہ کمیونسٹوں کیلئے آئے“.... بہت دیر بعد یہ احساس ہوا کہ قومیتوں پر جبر کرنیوالے جلد ہی ان کے پیچھے بھی آئیں گے۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ ان کے مفادات مظلوم قومیتوں سے جڑے ہوئے ہیں، کیونکہ ریاست اور اس کے اسٹراٹیجک اثاثے انہیں بھی دشمن سمجھتے ہیں اور انہیں اپنے نظریہ کیلئے ایک خطرہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
قومیتوں اور اقلیتوں کی بدحال زندگی کی وجہ پاکستانی ریاست کی پالیسیوں اور رویوں کے سبب ہے جسکی وضاحت سی ایس لیوئس نے انتہائی خوش اسلوبی سے کی ہے کہ جسکا میں نے ماضی میں بھی حوالہ دیا ہے: ”تمام مظالم سے وہ ظلم سب سے زیادہ ظالمانہ ہو سکتا ہے کہ جسے متاثرین کی بہتری کیلئے بروئے کار لایا جائے۔ کسی ڈاکو سردار کے تحت رہنا کسی صالح قادرِ مطلق مفسد کے زیر تسلط رہنے سے بہتر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ڈاکو سردار کا ظلم کسی وقت سوجائے، ہوسکتا ہے کہ اسکی طمع کسی نقطے پر پُرتسکین ہو؛ لیکن وہ لوگ جو ہمیں ہمارے ہی مفاد کی خاطر اذیتیں دیتے ہیں، ہمیں بلا اختتام جسمانی و روحانی اذیت بہم پہنچاتے رہیں گے، اسلئے کہ وہ اپنے ضمیر کی اجازت کیساتھ ایسا کرتے ہیں۔“ پاکستان ایک ڈاکو سردار اور ایک قادرِ مطلق صالح مفسد کا عملی اظہار ہے.                                                                                
ریاست نے کشمیر اور افغانستان میں اپنے ’قومی سلامتی ریاست‘ اور ’اسٹراٹیجک گہرائی‘ کے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے اپنے متعصب اسٹراٹیجک اثاثوں کو استعمال کرنے کیلئے ان کی افزائش اور دیکھ بھال کی ہے۔ ان محاذوں پر زیادہ کچھ حاصل کرنے سے قاصر رہنے اور طاقت اور دولت کا مزا چکھنے کے بعد، اب ان اسٹراٹیجک اثاثوں نے اپنے خون کی اُس پیاس کو بجھانے کیلئے اپنا رخ معصوم لوگوں کی طرف کردیا ہے کہ جس کیلئے انہیں تیار کیا گیا تھا۔ بلوچستان میں ہزارہ اور شیعوں پر فرقہ وارانہ حملے، بابوسر اور دوسری جگہوں میں شیعوں کا قتل، اور عیسائیوں اور احمدیوں پر ظلم و ستم، یہ سب کچھ ریاست کے اس ایجنڈے کا قدرتی منطقی نتیجہ ہیں کہ جس پر وہ عمل پیرا رہا ہے اوراور ان سب کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ انتہائی حد تک غیر انسانی فرقہ وارانہ حملوں کے بعد قابل نفرت اور قابل مذمت مسرّت اور شماتت کا اظہار انسانی وقار کی مکمل توہین ہے۔ خوش قسمتی سے، فرانسیسی مصنف اور کیتھولک فلسفی، بلیز پاسکل (1623 تا 1662) نے اسکے سبب کی وضاحت کی ہے کہ: ”لوگ کبھی بھی گناہ کو اس قدر کامل اور خوشدلی سے نہیں کرتے جتنا کہ وہ مذہب کے نام پر کرتے ہیں۔“ پاکستان، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی اور اینڈرس بریوک اسکی اعلیٰ ترین مثالیں ہیں۔

مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداء سے ایک تعلق ہے
mmatalpur@gmail.com
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 26 اگست، 2012
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2012%5C08%5C26%5Cstory_26-8-2012_pg3_2










_


ایک دُم چھلّا میڈیا
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
ایک کلبی، اجیر، اشتعال انگیز پریس کسی بھی ریاست کیلئے ایک قیمتی اثاثہ ہے جو اس بات کو یقینی بنانے پر تلی رہتی ہے کہ وہ اسکے نظریے کو ایک برترحقیقت کے طور پر قبول کروائے
بعض اخبارات (ڈیلی ٹائمزنہیں) نے کوئٹہ میں ایف سی کے زیرانتظام منعقد کیے گئے 14 اگست کے جشن کو برجستہ اور اشتیاق انگیز تقریبات کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ ستم ظریفی کہ وزیر اعلیٰ رئیسانی کی پرچم کشائی سمیت بیشتر تقریبات ایف سی کی منظم کردہ تھیں، لیکن وہ یہ بیان کرنے سے قاصر رہے؛ وہ سیلولر سروسز کی معطلی بھی بتانا بھول گئے جوکہ 23 مارچ کی مشق کا دہرانا تھا۔ اس بامقصد غلط بیانی کا مقصد محض لوگوں کو بیوقوف بنانا تھا تاکہ وہ یہ باور کرلیں کہ صرف چند شرپسند ہیں جو کہ بلوچستان کی صورتحال کیلئے ذمہ دار ہیں اور اس طرح سے وہ ایک سازگار ماحول پیدا کرلیں اور بلوچ کیخلاف زیادتیاں جاری رکھیں جو اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ جوزف پولِٹسر کا اقتباس، ”ایک کلبی، اجیر، اشتعال انگیز پریس وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اتنے ہی گھٹیا لوگ پیدا کریگا جتنا کہ وہ خود ہے،“ سچ لگتا ہے۔
ایک حریص، کم ظرف اور کاذب پریس (میڈیا) نے لوگوں کو ’اسٹابلشمنٹ‘ کی خواہشات اور اس کے ’قومی سلامتی کی ریاست‘ کے نظریے کو قبول کرنے کیلئے بے حس اور غلام صفت بننے میں مدد کی ہے۔ آمدنی کیلئے اُتاولا میڈیا، انسانی حقوق کے مسائل سے نمٹنے کے بجائے غیرسنجیدہ اور فروعی معاملات کو رات دن سات دن کوریج دیتا ہے۔ میڈیا نے ہمیشہ اس پالیسی کے منفی اثرات پر سوال اٹھائے بغیر، ’سیکورٹی ریاست‘ کے آدرشوں کو پُرزور طور سے پروجیکٹ کیا ہے۔ اسکا کریڈٹ صرف چند کالم نگاروں اور اخبارات کو جاتاہے کہ جنہوں نے اسلام اور ’قومی سالمیت‘ کے نام پر کیے جانیوالے اس ڈرامے کو بے نقاب کرنا برقرار رکھا ہوا ہے۔
لوگ اکثر ایسے کرتبی سوال کے جواب میں الجھ جاتے ہیں کہ، ”آسٹریلیا کی دریافت سے پہلے سب سے بڑا جزیرہ کون سا تھا؟“ یہ صرف اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ یہاں تک کہ اگر یہ عوامی علم میں نہ بھی ہو تو تب بھی حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی ہے۔ اسے انتہائی بداخلاقی سے پیش کیا جاتا ہے، محض اسلئے کہ لوگوں کو یہ پتہ نہیں ہے کہ بلوچستان میں زیادتیوں کا ارتکاب ہو رہا ہے یا آپریشن کیا جا رہا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ یہ سب کچھ وہاں نہیں ہو رہے ہیں۔ ہر جگہ ’مقتدراوں‘ نے ہمیشہ اس تمہید پر تکیہ کیا ہے کہ اگر معلومات کی اشاعت پر قدغن لگائی جائے تو فرض کیا جاسکتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا ہے یا نہیں ہو رہا۔ وہ اکثر ایک کلبی، اجیر میڈیا کی مدد سے کامیاب رہے ہیں، لیکن یہ امر یقینی طور پر ان کے جرائم اور مظالم کی سنگینی کو کم نہیں کرسکتی۔
مظالم کو بے نقاب کرنے میں میڈیا کے کردار کی نفی نہیں کی جا سکتی ۔ دی ایم؟ لائی قتل عام کہ جس میں خواتین، بچے اور بزرگ افراد سمیت تقریباً 500 غیر مسلح جنوبی ویتنامی شہری ہلاک ہوئے، جوکہ 16 مارچ، 1968 کو ویتنام جنگ کے دوران ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی فوج کے فرسٹ بٹالین کی چارلی کمپنی کے سپاہیوں کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اس پر کسی کا دھیان نہیں گیا لیکن دی انڈیپینڈینٹ کے تحقیقاتی صحافی سیمور ہرش، جنہوں نے 12 نومبر، 1969 کو دی ایم؟ لائی کی کہانی شائع کی، گوکہ دکھ کی بات ہے کہ قصورواروں سزا نہیں ملی۔ اس کہانی کو بے نقاب کرنا ممکن تھا کیونکہ ایسا کرنے سے اسکی زندگی کو کسی خطرے کا سامنا نہیں تھا۔ یہاں ان تمام لوگوں کا خاتمہ کیا گیا جنہوں نے حساس راستوں پر چلنے کی ہمت کی۔
بلوچستان میں صحافیوں اور میڈیا نے اپنے آدرشوں پر رہنے کی جدوجہد کی ہے اور اس کیلئے انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے؛ گزشتہ چار سالوں میں 22 صحافی قتل کیے گئے۔ اس کے علاوہ، چند سال قبل روزنامہ آساپ کو بند ہونے پر مجبور کیا گیا جب نیم فوجی دستوں نے اس کے دفاتر پر قبضہ کرلیا تھا۔ روزنامہ بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی کے دفاتر کو بھی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے پرنیم فوجی دستوں کی طرف سے قبضہ کیا گیا۔ اخبارات کی ویب سائٹس پر پابندی لگائی گئی۔ یکساں طور پر دوسرا موثر طریقہ ایف سی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ کا میڈیا پر الزام لگانا ہے کہ وہ جھوٹ پھیلارہے ہیں اور ان کے اچھے نام اور انتظامیہ کو بدنام کررہے ہیں۔ یہ موثر طریقے سے صحافیوں کی لگن پر قدغن لگانا ہے کیونکہ زبانی انتباہ کے بعد جسمانی تخویف اور خاتمہ آتے ہیں۔ حال ہی میں وش ٹی وی کے اینکرپرسن رزاق سربازی کے بھائی جلیل سربازی اور ان کے دوست عبدالصبور کو اغواء کر لیا گیا تھا۔ بلوچستان میں میڈیا کی آزادی کو ختم کرنے کیلئے ایک انتھک ریاستی کوشش جاری ہے۔
اس صورتحال میں فوج، ایف سی یا ان کے پٹھو جو کچھ کررہے ہیں، ان کی بابت رپورٹیں یا تحقیقات انتہائی محدود ہیں۔ دبا ہوا ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا کے برعکس، ایئر فورس یا فوج کی غیرمعمولی سرگرمیوں کو رپورٹ کرنے سے ہچکچاتی ہیں کہ جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو اور اس بات کو بے نقاب کیا جا سکے کہ بلوچستان میں آپریشن کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ ڈیرہ بگٹی، مری علاقے، اور مکران میں کچھ علاقے صحافیوں کی پہنچ سے باہر ہیں اور فوج کے ملوث ہونے کی اصل حدود اور زیادتیاں رپورٹ نہیں ہورہی ہیں۔
بلوچستان میں صحافیوں کو دھمکیاں، معلومات کی آزادی اور میڈیا پر قدغن یقینی طور اتفاقی نہیں ہیں بلکہ اسکے پیچھے ایک بدطینت محرک ہے تاکہ عوام کو حقائق پر مبنی معلومات سے محروم رکھا جائے اور اسکے ساتھ ساتھ امید سے بھی۔ کسی ایک شخص پر بھی ان 22 صحافیوں کے قتل کا مقدمہ نہیں بنایا گیا جو صرف اور صرف اپنا کام کر رہے تھے۔ بلوچستان میں میڈیا کے افراد کے سر پر لٹکتے موت کے مسلسل خطرے کا مقصد جسمانی طور پر معلومات کے آزاد بہاو کو روکنا ہے۔ ایک پریس (میڈیا) جو کہ ریاست کی مرضی اور نظریے پر سرخم تسلیم نہیں کرتی خطرے میں رہے گی جبکہ ایک کلبی، اجیر، اشتعال انگیز پریس جو اپنی ہی طرح کے لوگ پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے، اسے ترقی کی منازل طے کی اجازت ہے ۔
ایک دُم چھلّا میڈیا عوام کی آزادیوں اور حقوق کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ یہ ایک غیرگُریزی اور فرقہ واریت پر مبنی ماحول پیدا کرنے میں ریاست کی مدد کرتا ہے، جوکہ مسلسل ان لوگوں کے حقوق اور آزادیوں کو غیراہم بنادیتا جو ریاست کے غلط نظریات سے ہم آہنگ نہ ہوں۔ اس وقت بلوچوں اور سندھیوں، ان سے پہلے بنگالیوں اور یہاں کے مذہبی اقلیتوں کی طرح ’قومی سلامتی ریاست‘ نے میڈیا کی ملی بھگت کے ساتھ ان کے حقوق اور آزادیوں پر تجاوز کرلیا ہے، جو کہ بڑھتی ہوئی آمدنی کے عوض اخلاقیات اور سچ کو فروخت کرنے کا مجرم ہے۔ سپریم کورٹ نے، جو کہ اس وقت میڈیا میں فحاشی کے معاملے پرمصروف ہے، اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ معلومات تک لوگوں کی رسائی کے حق کی توہین میڈیا میں کسی بھی گستاخانہ اشتہارکے مقابلے میں زیادہ بیہودہ ہے، لیکن پھر آپ کو لوگوں کے حقوق کی اس خلاف ورزی کو سمجھنے کیلئے زندہ ہونا پڑے گا۔ ایک کلبی، اجیر، اشتعال انگیز پریس کسی بھی ریاست کیلئے ایک قیمتی اثاثہ ہے جو اس بات کو یقینی بنانے پر تلی رہتی ہے کہ وہ اسکے نظریے کو ایک برترحقیقت کے طور پر قبول کر وائے۔
پاکستانی میڈیا نے نہ صرف نسلی یا مذہبی اقلیتوں کے حقوق کیلئے کھڑے ہونے کی اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری نہیں کی ہے بلکہ کئی صورتوں میں ان کیخلاف زیادتیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سوشل میڈیا فرمانبردار میڈیا کی طرف سے پیدا کردہ خلا کو پُرکرنے کی کوشش تو کر رہی ہے لیکن اس میں اُس ساکھ اور اثر کمی ہے جوکہ مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کو حاصل ہے۔ سوشل میڈیا واقعی طاقتور بن جائے گی جب کارکنان سچائی اور تحقیقات کے بنیادی اصولوں پر عمل کریںگے۔ سوشل میڈیا ریاست کیلئے ایک کانٹا ہے لیکن اسے اعلیٰ معیار سے ہم آہنگ ہوکر ایک ایسا خنجر بننا ہوگا جو جھوٹ اور میڈیا پر عائد پابندیوں کو مار سکے۔ یہ ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے کارکن غلط رپورٹنگ کے نتائج سے آگاہ ہوں۔ سہولت کی خاطر ساکھ پر کبھی بھی سمجھوتا نہیں کیا جانا چاہئے۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
mmatalpur@gmail.com
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 19 اگست، 2012




متاثرین کی سرزنش
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی

بلوچ کو سب سے زیادہ صعوبتیں جھیلنا پڑی ہیں کیونکہ وہ اپنے لئے ایک عزت اور وقار کی زندگی کے حق کیلئے لڑ رہے ہیں


آزاد خیالوں کے درمیان ایک مکتبہ فکر ایسا ہے جسکے لئے یہ ایک ترقی پسندانہ اور فیشن ایبل روش ہے کہ وہ ریاستی مظالم کی ذمہ داری متاثرین پر ڈال دیتے ہیں، زیادتیوں کیخلاف مزاحمت کرنے پر انکی سرزنش کرتے ہیں اور اسکے نتیجے میں قصورواروں کو لوگوں پر زیادہ صعوبتیں ڈھانے اور انہیں مزید سزا دینے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ وہ قابل نفرت حد تک قصورواروں کی اطاعت گزاری کرنے کی وکالت کرتے ہیں تاکہ انکی صعوبتیں کم سے کم ہوں، اس بات کا ادراک کیے بغیر، کہ اطاعت گزاری انسانی وقار کو مجروح کرتا ہے اور مکمل غلامی کو یقینی بنا دیتا ہے۔ وہ زندگی کو محض ملازمتوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں، یہاں تک کہ اگر انکی نوعیت معمولی ہی کیوں نہ ہوں، اور کسی قسم کے کوئی اقتصادی فوائد خواہ وہ پس خوردہ ہی کیوں نہ ہوں کہ جن پر جائز حق تو تمہارا ہی ہے۔ ان کی وکالت اس بات پر ہے کہ لوگوں کو آزادی اور وقار کی زندگی کیلئے عارضی صعوبتیں قبول کرنے کے بجائے کھاتے پیتے غلام بننے کیلئے تیار کیا جائے۔ ان کیلئے اطاعت گزاری ایک اعلیٰ ترین اخلاقی امتیاز ہے اور مزاحمت ایک انتہائی مکروہ شے ہے۔ وہ قصورواروں کو بے خطا ثابت کرنے کیلئے متاثرین کو دوشی ٹھہراتے ہیں۔


مسٹر فرخ پِٹافی ایک مقامی انگریزی روزنامے میں 5 اگست، 2012 کے اپنے مضمون، ”بلوچستان: ابھی یا کبھی نہیں“ میں بلوچ سرمچاروں کی اسلئے سرزنش کرتے ہیں کہ ”انہوں نے اپنے لوگوں سے دھوکہ کیا ہے“ اور ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے ”بارہا اپنے بلوچ بھائیوں سے یہ کہا ہے کہ وہ ایک ایسی آزادی کیلئے مریں جو کہ انہیں ایک غلامی سے دوسری غلامی میں لے جائیگی۔“ اپنے دلیل کی حمایت میں مزید کہتے ہیں، ”اگر آپ کو کوئی شک ہے تو پڑوسی ممالک میں بلوچ کی حالت زار پر ایک نظر ڈالیں۔“ انکی منطق ناقص ہے؛ پڑوسی ممالک میں بلوچ کی حالت زار اسطرح سے اسلئے ہے کیونکہ ان پر بھی نوآبادیات مسلط ہے۔ انکا یہ مفروضہ کہ، ”وسائل کی دولت سے مالا مال خطہ انسانی ترقی میں بہت پیچھے ہے جس نے اسے علاقے میں موجود تمام بوالہوس قوتوں کیلئے ایک جاذب نظر شکار بنا دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صوبے کی موقع پرست اشرافیہ، جوکہ اس وقت اسلام آباد کیساتھ مل کر کام کر رہی ہے، امیر بنے گی لیکن بہت سارے غریب بلوچ اس سے فائدہ حاصل نہیں کر پائیں گے حتیٰ کہ اگر صوبے کو آزادی مل بھی جائے۔“ یہ بات بھی یکساں طور پر ناقص ہے کیونکہ سرمچار نہ صرف اسلام آباد کیخلاف جدوجہد کر رہے ہیں بلکہ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے ’صوبے کی موقع پرست اشرافیہ‘ کیخلاف بھی ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔


اس سے کوئی صرف یہی نتیجہ نکال سکتا ہے کہ اگر سرمچاروں نے اطاعت شعاری سے سرخم تسلیم کیا ہوتا تو بلوچ نے ترقی کرلی ہوتی۔ یہ ناقص دلیل خطرناک ہے، جبکہ چھینے گئے حقوق کے حصول کیلئے سرمچاروں کے جنگ کی سرزنش کرنا، پاکستانی ریاست کے مسلسل تشدد کی تائید میں دلائل پیش کرنے اور انکی توثیق کرنے کے مترادف ہے جوکہ اس نے 1948ء کے جبری الحاق کے بعد سے کیے ہیں۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بلوچ اپنے جائز اقتصادی، سماجی اور سیاسی زندگی کی وراثت سے محروم کر دیے گئے ہیں جوکہ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے ان کے پاس ہوتیں۔ بلوچ کو سب سے زیادہ صعوبتیں جھیلنا پڑی ہیں کیونکہ وہ اپنے لئے ایک عزت اور وقار کی زندگی کے حق کیلئے لڑ رہے ہیں۔ ریاست کی مرضی کے مطابق اطاعت گزاری سے ان کی زندگی مزید بدحال ہوگئی ہوتی۔


1940 کے اوائل میں جب جرمن ٹینکیں مغربی یورپ پر چڑھائی کر رہی تھیں تو گاندھی نے، اپنے عقائد کی بناء پر، ہندوستان کے رطانوی وائسرائے کو لکھا اور جرمنوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا، ”اس قتل عام کو روکنا لازمی ہے۔ آپ ہار رہے ہیں؛ اگر آپ اڑے رہے تو اسکا نتیجہ مزید خون خرابا ہی ہوگا۔ ہٹلر برا آدمی نہیں ہے....“ پھر 4 جولائی، 1940 کے ایک کھلے خط میں انہوں نے برطانوی عوام کو مشورہ دیا کہ، ”انہیں اپنے خوبصورت عمارتوں کیساتھ ساتھ اپنے خوبصورت جزیرے پر قبضہ کر لینے دو۔ تم یہ سب انکے حوالے کردو مگر نہ کہ اپنی روح اور نہ ہی اپنا ذہن۔“ ذرا اسکے نتائج کا تصور کریں کہ اگر برطانیہ نے اس مشورے پر عمل کرلیا ہوتا۔ یہ دلیل کہ ہٹلر ایک برا آدمی نہیں ہے یا پاکستانی ریاست ایک برا آقا نہیں ہے یکساں طور پر انتہائی احمقانہ ہے اور خطرناک بھی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایسی منطق اس ظالم کی باطنی اچھائی اور نیک نیتی کے حوالے سے پیش قیاسی ہے جوکہ حالانکہ فقط طاقت کے ذریعے ہی حل چاہتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ روح اور ذہن آزاد نہیں رہ سکتے اگر جسم اور مادر وطن قید اور غلامی میں ہوں۔


پولینڈ، فرانس وغیرہ کی جرمن قبضے کے دوران، آزادی کے حامیوں کی جرات مندانہ مزاحمت نے گِسٹاپو کو اجتماعی سزا دینے پر اکسایا کہ جس میں پکڑ دھکڑ اور نوجوانوں کا قتل شامل ہیں۔ لیکن لوگوں نے مظالم کے باوجود مزاحمت جاری رکھی اور کسی نے بھی آزادی کے حامیوں پر دھوکہ دہی کا الزام نہیں لگایا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مزاحمت کے بغیر انہیں زیادہ سے زیادہ صعوبتیں جھیلنا پڑیں گی اور ان کی آزادی ہمیشہ کیلئے خطرے میں پڑ جائے گی۔ آزادی کے حامیوں نے جرمنی کو شکست دینے میں اتحادی افواج کی مدد کی۔ مزاحمت کے حق سے دستبرداری ہمیشہ تباہ کن نتائج لائے گی۔


ویتنام جنگ میں، امریکہ کو یہ امید تھی کہ وہ ویتنامیوں کو اطاعت گزاری کرنے پر مجبورکرلے گا، اس نے ہنوئی اور ہائی فونگ پر اندھا دھند بمباری کی۔ جب بھی انکے طیارے مار گرائے جاتے، وہ بمباری میں شدت لاتے، جس سے زیادہ جانی نقصان اور تباہی ہوتی لیکن یہ ویتنامیوں کو امریکی طیارے مار گرانے سے باز نہ رکھ سکی کیونکہ اس غیر قانونی بمباری سے نمٹنے کا یہ واحد راستہ تھا۔ طیاروں کے اس مارگرانے کو لوگوں کی طرف سے کبھی بھی دغابازی قرار نہیں دیا گیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایک مضبوط دفاع کے بغیر، امریکہ یقینی طور پر زیادہ مارے گا اور مزید تباہی لائے گا۔


پِٹافی بلوچستان کے مسئلے کے حل کے طور پر جنوبی افریقہ طرز کی امن سازی کی تجویز دیتے ہیں لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام بادلِ نخواستہ امن پر متفق ہوئے جب انہیں احساس ہوا کہ سیاہ فام حکمرانی قبول کئے بغیر وہ اپنا سب کچھ کھو دیں گے۔ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ نیلسن منڈیلا اور اے این سی کی مسلسل اور جراتمندانہ جدوجہد تھی، اور ان پر بھی بعض اوقات یہ الزام لگے کہ وہ اپنی مزاحمت کیساتھ سیاہ فام جنوبی افریقہ کی بدحالی کے ذمہ دار ہیں، کہ جس نے سیاہ فاموں کو اپنے آبائی وطن میں انکے حقوق دلائے۔


جنوبی افریقہ میں امن کا قیام محض اس وقت ممکن ہوا جب سیاہ فاموں کو برابر کے طور پر قبول کیا گیا۔ یہاں ریاست کو صرف اسی چیز کی پرواہ ہے جسے پِٹافی ’ملک کے رقبے کا 44 فیصد‘ کہتے ہیں اور نہ کہ لوگوں کی؛ انکے لئے لوگ ناقابل اہمیت اشیاء ہیں۔ مزید برآں، کس سے یہ امن مذاکرات کی جائیں گی؟ یقینی طور پر رئیسانی اور ان کے کرپٹ ساتھیوں سے تو نہیں ہوں گی کیونکہ انہوں نے تو پہلے ہی سے طاقت اور دولت کیلئے بلوچ حقوق کا سودا کرلیا ہے کہ جس پر بلوچ خون کے دھبے لگے ہوئے ہیں اور وہ بلوچ کی نمائندگی نہیں کرتے۔ اتفاق سے، پاکستان نے ’وہ لوگ جو پاکستانی پرچم کو جلاتے ہیں‘ ان سے بات کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن صرف وہی لوگ ہیں جو واقعی کوئی اہمیت رکھتے ہیں۔


تشدد کبھی بھی پسندیدہ آپشن نہیں ہونا چاہیے لیکن کوئی یہ پوچھنے پر مجبور ہے کہ آیا ویتنام اور الجزائر کے رہنماوں کی امریکی اور فرانسیسی نوآبادیات کیخلاف مزاحمت غلط تھی، یا آلیندے غلط تھا جب وہ لڑتا ہوا مرگیا اور چلی کے لوگوں کیلئے پنوشے کی آمریت کیخلاف مزاحمت کی علامت بن گیا؟ میں بھی یہ سوچتا ہوں کہ اسپارٹیکس اور اسکے ساتھیوں نے کیا سوچا ہوتا اگر کوئی انہیں یہ کہتا کہ رومیوں کیخلاف مزاحمت کرنے سے وہ غلاموں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔


سرمچاروں نے بلوچ کو دھوکہ نہیں دیا ہے بلکہ ریاست کے ہاتھوں بے پناہ صعوبتیں جھیلنے کے باوجود انکے حقوق اور عظمت کو برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے بلوچ کو انکے حقوق، وسائل اور تاریخی وراثت سے محروم کرنے کی تمام ریاستی منصوبہ بندی کو ناکام بنادیا ہے۔ سرمچاروں نے اپنی قربانیوں کیساتھ بلوچ عوام کیلئے امید، انکی آواز اور انکے محافظ کے کردار کا فرض ادا کیا ہے۔ بلوچستان کے اصل دھوکے باز وہ ہیں جنہوں نے یا تو چپ سادھ لی ہے یا ان مجرموں کی مدد کی ہے جو بلوچ کو ان کے حقوق دینے سے انکاری ہیں۔ ان لوگوں کی سرزنش کرنا جو ناانصافیوں کیخلاف مزاحمت کرتے ہیں ریاست کو اس کے جرائم سے بری الذمہ قرار دینے کے مترادف ہے۔

مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداء سے ایک تعلق ہے
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 12 اگست، 2012




2








آگ لگانا

تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر

ترجمہ: لطیف بلیدی






بلوچستان میں ریاست کی زیادتیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ حکمران جماعت کے کچھ ارکان بھی گمشدگیوں اور قتل میں ریاست کے ملوث ہونے کی مذمت کر رہے ہیں شام آج ایک خانہ جنگی میں مبتلا ہے، اور رابرٹ فِسک کا کہنا ہے کہ یہ سب دیرا میں اس طرح شروع ہوا: ”بغاوت کی ایک تاریخی جگہ، کچھ نوجوانوں نے ایک دیوار پر اسد مخالف تصویر منقوش کی تھی۔ شام کی سیکورٹی پولیس معمول کے مطابق نوجوان مردوں کو گھسیٹ کر اپنے اسٹیشن لے گئی اور ان پر تشدد کیا۔ لیکن بعد میں ان کی مائیں ان کے رہائی کا مطالبہ کرنے کیلئے وہاں پہنچیں تو پولیس نے ان سے بدکلامی کی۔ اس کے بعد، زیادہ سنجیدگی سے، قبائلی عمائدین کا ایک گروہ پولیس کے رویے کی وضاحت طلب کرنے کیلئے دیرا کے گورنر سے ملنے گیا۔ ہر ایک نے اپنی پگڑی گورنر کی میز پر رکھ دی، جوکہ مذاکرات کا ایک روایتی عندیہ ہے؛ وہ اپنی پگڑیاں فقط اسی وقت دوبارہ پہنیں گے جب معاملہ طے پاجائے۔ لیکن گورنر نے، جوکہ ایک بدمزاج پرانا کھڑوش باتھسٹ اور حکومت کا وفادار تھا، سب سے زیادہ معزز شیخ کی پگڑی کو اٹھایا، اپنے دفتر کی فرش پر پھینکا اور اس پر اپنا پیر رکھ دیا۔ دیرا کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں احتجاج کیلئے باہر آ گئے، فائرنگ شروع ہوگئی اور بشر نے عجلت میں اس گورنر کو برخواست کرکے اس کی جگہ دوسرے کو بٹھادیا۔ بہت دیر ہو چکی تھی۔ آگ لگ چکی تھی۔ تیونس میں، ایک بے روزگار نوجوان، جس نے اپنے آپ کو آگ لگادی۔ شام میں، ایک پگڑی نے۔“

بلوچستان میں آگ مارچ 1948 میں اسکے جبری الحاق سے لگی اور اس کے بعد فوجی آپریشن، اغوا، قتل، معزز شخصیات کو دھمکیاں اور اشتعال انگیز بیانات نے اس آگ کو ایندھن فراہم کیا، اور اُس وقت تک اسکے بجھنے کا کوئی امکان نہیں جب تک کہ بلوچ اپنے حقوق کو حاصل نہ کرلیں۔ ریاست نے 1948 کے بعد سے بلوچستان میں فقط طاقت پر انحصار کیا ہے، اور یہ اُن تمام چنڈوبازوں کے طرح اسکے عادی ہوچکے ہیں جو تشفی کی امید لیے مسلسل اسکی خوراک میں اضافہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایک تنسیخی بیان میں، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، کہ جس نے یہاں تک کہ حال ہی میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کو بلوچستان کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا، منگل کے روز کہا ہے کہ اگر ایف سی چاہتی تو بلوچستان کی بگڑتی امن و امان کی صورتحال ایک ہفتے میں ٹھیک ہوسکتی تھی اور وہ یہ گوہرِ نایاب بھی اپنے ساتھ لائے کہ ”یہ میرا یقین ہے کہ صورتحال کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے اور وہ (ایف سی) مسئلے کو سات دنوں میں حل کر سکتے ہیں۔“ کوئی یہ نہیں جانتا کہ آیا اس سادگی پر ہنسا جائے یا رویا جائے، لیکن پھر یہ لگتا ہے کہ شاید یہ سادگی نہیں ہے بلکہ بلوچوں کی اپنی حقوق کیلئے جاری جدوجہد کو کچلنے کی خاطر ایف سی کی طرف سے بروئے کار لائی جانیوالی حکمت عملی سے چشم پوشی کیلئے ایک سوچا سمجھا بیان ہے۔ 

چیف جسٹس کے بیان کے بعد، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے غنڈوں نے معروف بلوچ شاعرہ، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی لیکچرر اور مشہور بلوچ دانشور مرحوم پروفیسر نادر قمبرانی کی بیٹی نوشین قمبرانی کو دھمکی دی۔ انہوں نے انکے گھریلو ملازم کو مارا پیٹا کہ اگر اس نے بلوچوں کیلئے آواز اٹھانا جاری رکھا تو اسکے لئے اسے سنگین نتائج بھگتنے کا انتباہ دیا، اس کیساتھ یہ پیغام بھی دیا کہ، ”ہم جانتے ہیں کہ اسکا ایک چھوٹا سا بچہ ہے، اسلئے اس سے کہو کہ ماں بنو باغی مت بنو۔“

ایک معزز بلوچ خاتون سے ادب آداب سے ناآشنا اس طرح کی بدسلوکی کے مظاہرے پر چیف جسٹس، سیاستدانوں، یہاں تک کہ عام طور پر پُرجوش سول سوسائٹی سمیت کسی کا بھی اس طرف دھیان نہیں گیا اور نہ ہی اسکی مذمت کی گئی۔ بلوچ کو اپنا دفاع خود کرنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے، اگرچہ یہ سب کے سب انتہائی مضطرب ہوجاتے ہیں اور پرزور مذمت کرتے ہیں جب بلوچ، جسے پاکستان سے کسی بھی قسم کے انصاف کی توقع نہیں، اپنی آزادی کے بابت اور اپنے رستے پر چلنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ان کیلئے یہ رئیل اسٹیٹ جوکہ بلوچستان واقعتا ہے، قابل دلچسپی ہے جبکہ اسکے لوگ نہیں۔ بلوچ عوام، ہمیشہ سے مشرقی پاکستان کے عوام کی طرح یہاں کے لوگوں کی اکثریت کیلئے ثانوی اہمیت کا حامل رہے ہیں۔ 1971 میں بنگالیوں کیخلاف نا انصافیوں پر لوگوں کی مجرمانہ اور ناقابل معافی خاموشی ایک غیرنادمانہ ملی بھگت تھی اور اسکا نیتجہ بنگلہ دیش کی صورت میں نکلا۔

مزید برآں، عدالت کے بیان کے جواب میں ایف سی کے سربراہ نے کہا کہ، ”وہ وقت اب آچکا ہے کہ اس نظرانداز شدہ صوبے میں رہنے والے لوگوں کے دل و دماغ کو جیت لیا جانا چاہئے۔“ انہوں نے مزید کہا: ”بلوچستان میں ہر فوجی اور وسائل کو صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے استعمال کیا جائے گا،“ مگر افسوس کا اظہار کیا کہ”صوبے میں واقعات کا جواب دینے کیلئے ایف سی بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ صرف پانچ فیصد علاقے میں موجود ہے۔“ ایسا لگتا ہے کہ افسوس ناک حدود کے باوجود وہ اس پُراندوہ بات کا ذکر کرنے سے چوک گئے کہ گزشتہ اٹھارہ ماہ میں 500 سے زائد بلوچ اغواء اور قتل ہوئے، حتیٰ کہ سپریم کورٹ کا بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ان میں سے بیشتر کیلئے ایف سی ذمہ دار ہے۔ 




بلوچستان کو ٹھیک کرنے کیلئے ایف سی کو کہنا اور پھر اس سے سات دنوں میں پایہء تکمیل تک پہنچانے کی توقع رکھنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک عامل کو کسی سنگین مسئلہ کو حل کرنے کیلئے کہا جائے۔ عامل تمام عارضوں کے علاج کیلئے ایک مخصوص طریقہ ہی استعمال کرتے ہیں؛ بالکل اسی طرح، ایف سی اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے صرف طاقت کا استعمال جانتی ہے۔ بلوچستان مسئلے کی بنیاد بلوچ کیخلاف غیرمنصفانہ اور اندھادھند طاقت کا استعمال ہے اور ریاست کے تمام ڈاکٹر اسے زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کا نسخہ دینا برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ طاقت نے اب تک مسئلہ حل نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس سے یہ کبھی حل ہونے جا رہی ہے۔
بلوچستان میں ریاست کی زیادتیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ حکمران جماعت کے کچھ ارکان بھی گمشدگیوں اور قتل میں ریاست کے ملوث ہونے کی مذمت کر رہے ہیں۔ فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں کسی لفظ کا بھرتہ بنائے بغیر کہا کہ بلوچ عوام کو درپیش سب سے بڑا خطرہ سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے ان کی جبری گمشدگیاں ہے۔ ایک وفاقی وزیر، میر چنگیز جمالی نے بی بی سی کے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بلوچ کارکنوں کے اغواء اور قتل کیلئے ذمہ دار ہیں اور یہ کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے مشرف دور کی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے بلوچستان کی صورتحال کیلئے حکومت، فوج اور سیاسی جماعتوں کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ ایف سی کا ایک کرنل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے۔
گویا کہ چیف جسٹس کے سات دن کے علاج والی تجویز کافی نہیں تھی کہ سینیٹر رحمن ملک نے، جوکہ بلوچستان میں ہرچیز کو ایک سازش کے طور پر دیکھتے ہیں اور بلوچ کیخلاف دروغ گوئیاں جاری رکھنے پر جمے ہوئے ہیں، سینیٹ کی ایک تقریر میں، اس وضاحت کے بغیر کہ بلوچوں کو قتل کون کر رہا ہے، انہوں نے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے بلوچوں کیخلاف زہر افشانی کی، معمول کے الزامات اور اشاروں کنایوں میں بھارتی اور افغان حکومتوں کے ملوث ہونے کا الزام لگایا اور بلوچوں کو قصوروار ٹھہرایا۔ یہاں تک کہ انہوں نے بلوچستان میں ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکہ اور اقوام متحدہ کی دلچسپی پر بھی تنقید کی۔ اسے روکنے کیلئے، جسے وہ ایک سازش کے طور پر دیکھتے ہیں، مزید طاقت کے استعمال کی وکالت کی۔ تاہم، وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ اگر طاقت سے عوام کی خواہشات کو دبایا جاسکتا ہے تو اس دنیا پر اُس برادری کا راج ہوتا کہ جس نے سب سے پہلے خود کو ایک مسلح گروہ کے طور پر منظم کیا تھا۔ فطری طور پر، انہوں نے باقی تمام لوگوں کو پیش قدمی سے روک لیا ہوتا لیکن سماجی قوانین گروہوں اور افراد کے طاقت کی پابند نہیں ہیں۔ لوگ تواتر کیساتھ اس طوق کو توڑنے میں کامیاب رہتے ہیں جوکہ ان لوگوں کو امید بخشتی ہے جو ظلم اور ناانصافی کیخلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ 
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 5 اگست، 2012






کوئی اُمید نہیں


تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر



ترجمہ: لطیف بلیدی






ریاست بلوچ کی خواہشات اور حقوق کیلئے ان کے مطالبے کو محض اپنے اسٹریٹجک اور اقتصادی منصوبوں کیلئے ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھتی ہےلاپتہ افراد یا ان کے رشتہ داروں کی اکثریت کی صعوبتیں کم کیے بغیر، سپریم کورٹ میں بلوچستان کے لاپتہ افراد پر کی جانیوالی سماعتیں غیر متعین طور پر اختتام پذیر ہورہی ہیں۔ مزید برآں، ایسا لگتا ہے کہ یہ سماعتیں بلوچ کیلئے پہلے ہی سے برے حالات کو مزید ابتر کرنے کا باعث بنیں گی کیونکہ چیف جسٹس کے بیان ’بلوچستان میں ایک آئینی بگاڑ آچکا ہے‘ کے سنگین مضمرات ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس آئینی بگاڑ کیلئے خصوصی اور ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ پہلے ہی سے کسی بیگ راج نامی شخص، پنجاب فورم کے صدر نے، ایک قومی اخبار میں مطالبہ کیا ہے کہ حکومت سنجیدگی سے غور کرے اور تجویز پیش کی ہے کہ بلوچستان میں صورتحال کو معمول پر لانے کیلئے گورنر راج نافذ کرنے کے بعد بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی شروع کی جائے۔ بلوچ سوچ رہے ہیں کہ آیا ان تمام سماعتوں کا مقصد صرف اس امکانی صورت کو جواز اور بنیاد فراہم کرنے کیلئے تھا۔

یہ سماعتیں فرنٹیئر کور (ایف سی) کی اس خودسر ہٹ دھرمی سے مسترد کرنے میں نمایاں ہوجاتی ہیں جنہیں سپریم کورٹ نے اس کیخلاف ناقابل تردید ثبوت کہا تھا۔ گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کو پیش کرنے کا حکم دیا، لیکن ایف سی نے اپنے پیش کردہ ایک تحریری بیان میں کہا کہ اس نے ”اندرونی طور پر تفتیش کی ہے“ اور پتہ چلا ہے کہ لاپتہ افراد کا گروہ” ایف سی کی تحویل میں نہیں ہیں“، انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے معاملات میں، باغیوں نے ایف سی کی وردیاں پہن کر ”عوام کی توجہ حاصل کرنے والی دہشت گردی اور سنگین جرائم کی بڑی کارروائیاں کی ہیں.... اس طرح سے انہوں نے اس وفاقی ادارے کو بد نام کیا ہے۔“ بالکل۔ کہانی ختم۔ لاپتہ افراد ان کے پاس نہیں ہیں؛ اس کے علاوہ، دغاباز فریبی ایف سی کی یونیفارم میں ملبوس ’مقدس‘ ایف سی کو ایک برا نام دینے کیلئے برے کام کرتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں پولیس کے اختیارات بھی چاہیئیں تاکہ وہ لاپتہ افراد کیلئے گھر گھر تلاشی لے سکیں کہ گویا انکو حاصل وسیع صوابدیدی اختیارات کافی نہیں تھے۔ تردید کا سہارا انکو مدد دیتا ہے کیونکہ یہاں کسی بھی اتھارٹی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ ان کی جعلی تردید کی تصدیق یا اسے غلط ثابت کرسکے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ایف سی کا یہ دعویٰ کہ باغی ان کی وردیاں پہن کر لوگوں کو اغواء کرتے ہیں، انکے دوسرے دعوے کی نفی ہے کہ باغیوں کا بلوچستان میں کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے، جس سے یہ ظاہرہوجاتا ہے کہ ایف سی اور پولیس دراصل کتنے نااہل ہیں۔ یہ ناقابل قبول بچکانا پریوں کی کہانیاں انسانی فہم و فراصت کی توہین ہیں۔ وہ فقط فوج اور ایف سی کی ظلم اور جبر کیساتھ بلوچ کو محکوم بنانے کی پالیسی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان تمام دعووں اور قانون کے عدم احترام کا مقصد سپریم کورٹ کو اس بات کی ضرورت پر مجبور کرنا ہے کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ کرے کہ جس سے اس آئینی بگاڑ سے پیدا شدہ صورتحال کو ٹھیک کیا جاسکے۔ اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ جہاں تک بلوچ کا تعلق ہے، تو ان پر ہنگامی اختیارات کے تحت حکومت کی جا رہی ہے کہ جس سے فوج اور ایف سی استفادہ کررہے ہیں۔ ’آئینی بگاڑ‘ کا فیصلہ محض ہنگامی اختیارات کی رسمی طور پر توثیق تو کر سکتے ہیں لیکن اس سے نہ تو لاپتہ افراد واپس آئیں گے اور نہ ہی وقفوں کیساتھ وقوع پذیر ہونیوالے فرقہ وارانہ حملوں کا خاتمہ ہوسکے گا۔





مسٹر آئی اے رحمان، انسانی حقوق کے محترم سرگرم کارکن نے، 19 جولائی، 2012 کے اپنے مضمون، ’اقوام متحدہ اور لاپتہ افراد‘ میں لکھا تھا کہ یہ رپورٹ کہ ”جبری اور غیر رضاکارانہ طورپر لاپتہ افراد پر اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی ایک ٹیم ستمبر میں پاکستان کا دورہ کرے گی، اس نے ضرور بلوچستان میں بہت سے دلوں میں امیدیں بڑھا دی ہونگی۔“ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اس ورکنگ گروپ کی درخواست کہ وہ اس مسئلہ کا تعین کرنے کیلئے دورہ کرے، جسے پہلے ہی سے 20 ماہ کی تاخیر ہوچکی ہے مزید تاخیر نہیں کی جائے گی، اور بغیر کسی رکاوٹ کے دورہ کرنے کی اجازت دے دی جائیگی تاکہ ”وہ اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ اقوام متحدہ کی ٹیم کیساتھ ہونیوالے تبادلے تردید اور تاریکی کی چھتری تلے پناہ لینے کے بجائے سچ، کشادگی اور معاملات کو حل کرنے کی خواہش پر مبنی ہونگی۔“ انکا یہ بھی خیال تھا کہ ”اقوام متحدہ کی ٹیم کیساتھ منصفانہ طور پر نمٹنے میں ہچکچاہٹ سے بلوچستان کے عوام، خاص طور پر بلوچ آبادی میں دوریاں مزید بڑھیں گی۔“

ایسا لگتا ہے کہ مسٹر رحمان مایوسی میں مبتلا ہیں کیونکہ ’اسٹابلشمنٹ‘، پڑھئے فوج، لاپتہ افراد کے بارے میں کسی بھی آزاد تحقیقات کی اجازت دینے کیلئے تیار نہیں ہے کیونکہ لگتا ہے کہ یہ انکی شورش سے نمٹنے کی پالیسی کی بنیاد اور ریڑھ کی ہڈی ہے۔ جولائی 2011 کے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ، ”ہم تشدد، قتل، یا سالوں تک آپ کو رکھ سکتے ہیں“ کو فوج کی جانب سے بالکل اسی طرح مسترد کیا گیا جیسا کہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کی رپورٹ ”حقائق سے چشم پوشی کرنیوالے افراتفری کی طرف پھسلتے ہیں“ کو کیا گیا تھا؛ ان دونوں رپورٹوں نے فوج، ایف سی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو گمشدگیوں کیلئے مورد الزام ٹھہرایا تھا۔

بلوچ نے 31 جولائی کو سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے کی امید میں اپنی سانسیں نہیں روک رکھی ہیں اور نہ ہی انکی لاپتہ افراد پر اقوام متحدہ کی ٹیم سے کوئی توقعات وابستہ ہیں۔ انہوں نے یہ آس لگانا ترک دیا ہے کہ کوئی انہیں انصاف فراہم کرے گا اور اسی سبب وہ طاقت کو طاقت کیساتھ روکنے کیلئے اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اطاعت گزاری عمومی طور پر بلوچ کیلئے صرف اور صرف مزید تکالیف لائے گی۔ ریاست بلوچ کی خواہشات اور حقوق کیلئے ان کے مطالبے کو محض اپنے اسٹریٹجک اور اقتصادی منصوبوں کیلئے ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھتی ہے اور وہ اسی بنیاد پر ان کیساتھ نمٹنا جاری رکھے گی۔

یہاں حقوق اور انصاف کا انحصار اس بات پر ہے کہ کوئی پارٹی، گروہ، ادارہ یا فرد کتنی قوت رکھتا ہے۔ اسٹالن کے مترجم ویلینٹن بیریژخوف 1944 کی اپنی یادداشتوں میں کہتے ہیں کہ جب چرچل نے اسٹالن کو اس بات پر قائل کرنا چاہا کہ وہ کیتھولک پولینڈ کے روحانی اقدار کو غالب ہونے کی اجازت دے تا کہ پوپ کی مخالفت سے بچا جاسکے تو اس نے اس بات کے جواب میں منہ پھٹ طور سے سوال کیا ”روم کے پوپ کے پاس کتنی ڈویژن فوجیں ہیں؟“ حقوق اور انصاف کو ڈویژنوں کے حمایت کی ضرورت ہے اور بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملے پر سپریم کورٹ کے پیچھے ایک پلاٹون بھی کھڑی نہیں، تاہم اس آئینی بگاڑ کی درستگی کے فیصلے میں جو کچھ بھی یہ کہتے ہیں، اس کیلئے ہو سکتا ہے کہ اس ’پاک سر زمین‘ کی پوری مسلح طاقت انکے پیچھے کھڑی ہوجائے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ اسٹابلشمنٹ کے اعصاب کو ذرہ برابر بھی نہیں چھوتی جو کہ انتہائی حد تک سخت گیر ہے کیونکہ یہ بلوچ جدوجہد کو ایک واضح اور موجود خطرے کے طور پر دیکھتی ہے اور اسکا خیال ہے کہ بے دریغ طاقت کے استعمال کیساتھ وہ بلوچ خواہشات کو اس حد تک دبا سکتے ہیں کہ وہ اپنی جدوجہد چھوڑدینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ جو کہ تاہم مستقبل قریب میں ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ بلوچ نے ا ب تک اپنے خون کا اتنا زیادہ سرمایہ اس میں لگا دیا ہے اور اتنی ساری زندگیاں اپنی جدوجہد میں صرف کردی ہیں کہ انکے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

شیخ سعدی گلستان میں منگولوں کیساتھ جنگ کرتے ہوئے ایک شدید زخمی خوددارشخص کی کہانی بیان کرتے ہیں کہ جسے یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک قریبی گاوں میں ایک لالچی اور بدمزاج شخص کے پاس دوا ہے جوکہ شاید اس کا علاج کر سکے۔ اس نے جواب دیا کہ یہ حریص شاید اس سے نہ مانے اور اگر وہ مان بھی جائے، تو کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ یہ اس کا علاج کرلے گا، بہتر یہی ہے کہ وقار کے ساتھ مرا جائے۔ خود دار بلوچ کسی بخیل کی دوائی کا انتظار نہیں کر رہے بلکہ بہادری سے اپنے حقوق کیلئے لڑرہے ہیں۔






مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداء سے ایک تعلق ہے

mmatalpur@gmail.com 

بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 29 جولائی، 2012



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی بلوچستان سے بیدخلی کے نمایاں آثار  
حفیظ حسن آبادی
.....................................................................................
اچھائی کی طرف قدم؟



اچھائی کی طرف قدم؟
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
بلوچ کو ان کے حقوق نہ دینے کیلئے ریاست کی طرف سے بہانے تراشنے کی ایک طویل تاریخ ہے، ہر چند کہ بھیڑیے اور بھیڑ کی حکایت کی طرح، آخر کار انہیں کسی بہانے کی ضرورت نہیںنئے وزیر اعظم کے پاس بطور ان کی اولین ترجیح کے بلوچ آرزووں کو ظالمانہ قوت کیساتھ دبانے کا ایک پرانا ایجنڈا ہے اور ان کے بیانات اس متوقع کریک ڈاون کے ارادے کی مکمل تشریح ہیں کہ جنکا بلوچستان کے لوگوں کو جلد ہی تجربہ ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد میں فوج کی زیرسرپرستی چلنے والے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این یو ڈی)میں، ’بلوچستان کی صورتحال: تصورات اور حقیقت؛ اچھائی کی طرف قدم‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک دو روزہ قومی ورکشاپ میں، جوکہ پنڈال میں شریک لوگوں اور منتظمین کیلئے مناسب تھا، انہوں نے کہا کہ اگر ’چھوٹے علاقوں میں بدامنی‘ کو فوری طور پر قابو نہ کیا گیا تو یہ دیگر علاقوں تک پھیل سکتی ہے۔ انہوں نے ان ’مٹھی بھر عناصر‘ کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا جو بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار کر رہے ہیں۔ انکے رسمی اعلانات بلوچ کیخلاف کارروائیوں میں شدت آنے کی منحوس اور بدشگون عندیے ہیں، کہ جن کو 1948 کے بعد سے مسلسل استعمال کیا گیا ہے۔ حسب توقع، این ڈی یو میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حاضرین زیادہ تر وہی لوگ تھے کہ جنہوں نے ہمیشہ کھلے عام یا خاموشی سے بلوچ کیخلاف مظالم کی طرفداری، حمایت اور تعریف کی ہے۔ این ڈی یو کی یہ اچھائی کی طرف قدم، ایسا لگتا ہے کہ بلوچ کیخلاف ایک بلا روک قوت کے استعمال کا عندیہ ہے۔گزشتہ چھ دہائیوں میں کی جانیوالی متعدد فوجی کارروائیوں کے باوجود ان مٹھی بھر عناصر کو ختم کرنے کا وعدہ وفا نہ ہوا جو بلوچستان کو غیر مستحکم کر رہے ہیں۔ اور نہ ہی وزیراعظم اشرف کی قیادت میں یہ ثمرآور ہوگا کیونکہ یہ بلوچ عوام کی اکثریت ہے جو غیرمنصفانہ استحصال اور غلبے کیخلاف مزاحمت کر رہی ہے؛ اگر مبینہ طور پر وہ مٹھی بھر ہوتے تو بہت پہلے ان کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔ تاہم اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ کیوں بلوچ نجات کے متلاشیوں کو مٹھی بھر تصور کیا جاتا ہے۔ وہ دسیوں ہزاربہادر اور جوانمرد بلوچ کہ جنہیں صرف گزشتہ 65 سال کے دوران ہلاک اور قید کیا گیا، مٹھی بھر سے بہت زیادہ ہیں، کیونکہ وہ لاکھوں خاندانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔راجہ پرویز نے مذاکرات کرنے کی پیشکش کی لیکن کہا کہ، ”ہم ان لوگوں سے بات نہیں کریں گے جو پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں اور جو اس کے پرچم کو جلاتے ہیں۔“ یہ بات ان کو محمد اسلم رئیسانی اور ان جیسوں سے بات کرنے کیلئے چھوڑ دیتا ہے اور اگر وہ کسی صورت بھی اس پوزیشن میں ہوتے کہ وہ بلوچستان کی تقدیر پر اثر انداز ہو سکیں تو نہ صرف یہ بغاوت چار سال پہلے ختم ہوچکی ہوتی بلکہ ماضی کی تمام ریاستی ناانصافیاں بھی اتنی ہی قابل تعریف ہوتیں اور ان کو ایک عمدہ تحفے کے طور پر قبول کیا جاتا۔ وزیر اعلیٰ رئیسانی اینڈ کمپنی بلوچ پر ڈھائے جانیوالے مظالم کے جرم میں برابر کے شریک ہیں اور اس حد تک چاپلوس اور حکم کے غلام ہیں کہ اگر ان سے کہا جائے تو وہ خود ہی اپنی موت کے پروانے پر اپنی مرضی سے دستخط کردیں گے۔ کوئی بھی مذاکرات ان لوگوں کی شرکت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتیں جوکہ گوریلا جدوجہد کی قیادت کررہے ہیں، بشرطیکہ وہ ریاست کیساتھ بات کرنے پرمتفق ہوں۔ وزیراعظم اشرف نے فوج اور نیم فوجی فرنٹیئر کور (ایف سی) پر تعریف کے پل باندھ دیئے اور انہیں ’بلوچستان میں قومی مفادات کو فروغ دینے اور ان کی حفاظت‘ کرنے کیلئے سراہا۔ قومی مفادات کا تحفظ لوگوں کو اغواء اور ’غائب‘ اور فوجی آپریشن کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ فوج فوجی آپریشن کی تردید کرتی ہے، محض اسلئے کہ اسے ایف سی کر رہی ہے، جو کہ سب سے زیادہ لغو بہانہ ہے۔ حال ہی میں، اسپلنجی اور کابو کے علاقوں میں عبدالنبی بنگلزئی اور دیگر کے گھروں پر حملوں کیلئے ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا گیا؛ سات افراد ہلاک ہوئے اور بہت سے اٹھا لئے گئے۔ اسی طرح، خضدار کے علاقے توتک میں گزشتہ فروری کو، 30 افراد اٹھا لئے گئے، ان میں سے دو مردہ حالت میں پائے گئے، 14 اب بھی لاپتہ ہیں۔ تاہم، لوگوں کو دہشت زدہ کرنے اور ان میں خوف پیدا کرنے کی کوششوں کے تحت کیے جانیوالے اغواء اور گزشتہ 18 ماہ میں 500 سے زائد بلوچوں کا قتل سودمند ثابت نہ ہوا لیکن پھر بھی مقتدرہ اس حقیقت کو دیکھنے سے انکاری ہے۔مسٹر اشرف نے مسلح افواج کی اقتصادی سرگرمیاں پیدا کرنے اور صوبے کے دور دراز علاقوں میں سرکاری اسکولوں اور کیڈٹ کالجوں کی ایک بڑی تعداد کھولنے پر بھی ان کی بھرپور تعریف کی۔ اگرچہ چمالنگ کوئلہ اور اسی طرح کے دیگر منصوبوں کوبلوچ کیلئے فائدہ مند دکھایا جاتا ہے، اصل میں، یہ صرف انہی لوگوں کو فائدہ دے رہے ہیں جوکہ مکمل طور پر فوج کیساتھ ملے ہوئے ہیں۔ کیڈٹ کالجیں اور بحریہ کی اکیڈمیاں تعلیمی ادارے نہیں ہیں بلکہ یہ سیکورٹی اسٹیٹ کے ہاتھوں کو مزید استحصال کیلئے مضبوط بنانے کے ذرائع ہیں۔ یہ سب کچھ تاہم اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ بلوچستان کا انتظام چلانے میں سویلین لوگوں کا کتنا عمل دخل ہے۔ قطع نظراس کے کہ اسلام آباد اور کوئٹہ میں کون برائے نام قیادت کر رہا ہے، حقیقی فیصلوں کا اختیار فوج کے پاس ہے اور جب تک کے کہ یہ اسی طرح چلتا رہے گا، بلوچ پر جبر کی پالیسی جاری رہے گی۔بلوچستان میں بلوچ کو حراساں کرنے پر مطمئن نہ ہوتے ہوئے، پنجاب حکومت نے حال ہی میں راجن پور کے پہاڑوں میں فراری (باغی) کیمپوں کی موجودگی کے بارے میں ایک من گھڑت خفیہ انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر، کہ جہاں باغیوں کو راکٹ لانچر اور دستی بم سمیت بھاری ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دی جاتی ہے، مری اور بگٹی کے علاقوں کی سرحد سے ملحق اندرون ملک بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) کیخلاف آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہاں حال ہی میں کیے گئے ایک آپریشن میں دو افراد، موالی بگٹی ولد قیصر بگٹی اور گھنڑا بگٹی ولد کرغی بگٹی کو ہلاک اور بہت سوں کو زخمی اور گرفتار کیا گیا تھا۔ ان آپریشنوں کو بالکل اسی طرح سراہا جارہا ہے جیسا کہ بولان، کوئٹہ، مستونگ اور کچھی کے اضلاع میں کیے گئے آپریشنوں کو سراہا گیا تھا۔
بلوچ کو ان کے حقوق نہ دینے کیلئے ریاست کی طرف سے بہانے تراشنے کی ایک طویل تاریخ ہے، ہر چند کہ بھیڑیے اور بھیڑ کی حکایت کی طرح، آخر کار انہیں کسی بہانے کی ضرورت نہیں؛ مارچ 1948 میں، مسلم قوم کے مفادات کے بہانے کو استعمال کرتے ہوئے بلوچستان کا الحاق کیا گیا۔ اکتوبر 1958 ء میں خان آف قلات کی تصور کردہ بغاوت کا خوف مفید ثابت ہوئی۔ 1973 میں، ان کی نظر میں سردار عطاءاﷲ خان کی حکومت کیساتھ صورتحال تباہی اور انتشار کا منظر نامہ پیش کررہی ہے کہ جس نے اسکی برخاستگی کا جواز فرہم کیا۔ اسکے ساتھ ساتھ پیٹ فیڈر میں آبادکاروں کی زمینوں پر فرضی قبضہ، کہ جنہیں اول تو اس زمین پر ملکیت کا کوئی حق ہی نہیں تھا اور لسبیلہ کے جام یوسف کے بھاڑے کی ٹٹووں کی طرف سے حکومت مخالف مظاہرے شامل ہیں۔ اس وقت ان کی نظر کسی شخص یا حکومت پر نہیں ہے، بلکہ اس وقت، انہوں نے اپنی نظریں پوری بلوچ عوام پرجمادی ہیں؛ یقینا، انکے حلیف اس سے مستثنیٰ ہیں۔بلوچ کے درمیان موجود بیگانگی صرف ریاستی مظالم کی وجہ سے نہیں ہے، اگرچہ یہ بلوچ جدوجہد کی حقیقی وجوہات کو برقرار رکھتی اور مضبوط بناتی ہیں یعنی کہ اپنی اس خود مختاری کو دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش کہ جسے انہوں نے مارچ 1948 میں کھودیا تھا۔ ریاست اور اس کی مشینری اس ماضی سے غافل ہیں اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مظالم کبھی بھی تاریخ کی لہر کا رخ نہیں موڑ سکتیں۔ جتنی زیاد قوت بنیادی پالیسی کے طور پر استعمال کی جائے گی، لوگوں میں اتنی ہی زیادہ بیگانگی آئے گی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ طاقت کا استعمال ان مفادات کے تحفظ کی کوششوں کے خلاف جاتی ہیں کہ جنکے تحفظ کیلئے اسے استعمال کیا جارہا ہوتا ہے۔ ہاورڈ زِنّ کا ایک اقتباس اس کی وضاحت کرتا ہے: ”ایک طاقت ہے کہ جس سے اظہار نہ ہونیوالی وجوہات کے سبب غیظ و غضب، ہمت، اور ایک مشترکہ مقصد کیلئے تشویق پیدا ہوسکتی ہے، اور یہ کہ اگر کافی زیادہ لوگ اس میں اپنا ذہن اور جسم صرف کردیں تو وہ جیت سکتے ہیں۔ یہ وہ رجحان ہے کہ جسے تاریخ میں بار بار پوری دنیا میں نا انصافی کیخلاف مقبول تحریکوں کے حوالے سے ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔“ ریاست کے طیش دلانے والے عمل کے سبب، اب کافی زیادہ لوگوں نے اپنے ذہن اور جسم بلوچستان کے کاز میں ڈال دیے ہیں۔



مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے


بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 22 جولائی، 2012

.................................................................................................................................................

ایک گمراہ کن آرٹیکل آزادی پسندوں کیلئے شہد میں زہر
 لیاقت نگہبان

میں نےکالونائیزر+ابہام= کالونائیزڈ+اتحاد  جو بلوچ نیشنل موومنٹ کے نام نہاد بلاگ کی طرف سے سامنے آیا ہےسےزیادہ گمراہ کن آرٹیکل اس  سےپہلے کبھی نہیں پڑھا۔اسمیں تمام باتوں کو یکجاہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر ان لیگیوں اور موجودہ پارلیمنٹ میں موجود لٹیروں کی جگہ بی۔این۔پی مینگل حکومت میں آئے تو وہ اس اسمبلی کو بلوچ قومی تحریک کے حق میں استعمال کرےگی۔جو سراسر ایک منافقت کی وکالت کے سوا کچھ نہیں گویا اب جو الیکشن ہونے جارہے ہیں آپ بی۔این۔پی کو دشمن کا گماشتہ تصور نہ کریں اور اپنی نفرت کا اظہار اُن جماعتوں کی طرف کیجئے جنکی ابھی حکومت ختم ہونے والی ہے۔نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے بات بالکل مختصر اور واضع ہے جو بھی پاکستانی الیکشن میں جائے گا وہ پاکستان کی قبضہ گیریت کو قانونی جواز بخشے گا۔ایسے وقت میں جب پاکستان کا کمر ٹوٹ چکا ہے بین القوامی طور پریہ ملک بے اعتبار ٹھہرا ہے ایسے وقت میں ان لٹیروں کی جگہ لینے کی وکالت اور کسی کو ان سے بہتر کہنے کی دلیلیں خود کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ بھی نہیں بابا مری سے لیکر شہید غلام محمد تک بی۔این۔ایف سے لیکر ۔عام آزادی پسند بلوچ تک سب نے سردار مینگل یا ڈاکٹر مالک کو بُرا نہیں کہا ہے بلکہ اُنھوں نے انکی اِنہی پالیسیز کو غلط کہا ہے جس پر یہ جماعت عمل پیرا ہے بابا مری نے فرمایا میں اختر حاصل مالک اینڈکمپنی کو قوم پرست نہیں مانتا کیونکہ یہ وسائل کی لوٹ کھسوٹ روکنے کی بات کرتے ہیں لیکن دوسری طرف خود اس لوٹ کھسوٹ کا حصہ نہیں یہ بلوچ حاکمیت کی بات بھی کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اُس ریاست کا ہاتھ مضبوط اور اُسکے غیر قانونی قبضہ کو قانونی بنانے اُسکے معاون بھی ہیں۔۔شہید غلام محمد نے انھیں انکے اِسی پالیسیوں کی وجہ سے صوبہ خان کاخطاب دیا اور شہید صبا نے اپنے آخری تقریر میں ان کا نام لیکر اُنھیں ریاست کا گماشتہ قرار دیا اوراب یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ یہ جماعتیں اپنی اُن پالیسیوں کو ترک کرنے آمادہ ہیں یا اُنہی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوکر بلوچ قوم کیلئے اس تاولیل کو کافی سمجتھے ہیں کہ کہ پہلے والے کرپٹ تھے جب یہ آئیں گے تو آپکی خدمت کریں گے۔ایسی کوئی بات نہیں خرابی اُس سسٹم میں ہے جس کا حصہ بن کر قوت گویائی جواب دیتی ہے۔سب نے اس ضمن میں بہت غلطیاں کیں ہے اب وقت آگیا ہے کہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرکے اُن غلطیوں کو تسلیم کرکے اُنھیں دوبارہ نہ دہرانےکا اعادہ کیا جائے نہ کہ گمراہی کیلئے راستہ ہموار کرنے لوگوں کو احمق سمجھ کر اُنھیں لولی پوپ سنایا جائے۔اسلم رئیسانی،اسد بلوچ،احسان شاہ اسرار زہری،ثناء زہری،عبدالقادر بلوچ،اسماعیل بلیدی،اختر مینگل،غفور حیدری ڈاکٹر مالک سب اُس وقت تک ایک جیسے ہیں جب تک پاکستانی اسمبلی و پاکستانی وجود سے قطع تعلق کا اعلان نہیں کرتے
کابل میں بلوچ مسلے کی بازگشت
تحریر۔لیاقت نگہبانؔ



Comments

Popular posts from this blog

American expected defeat in Ukraine: a golden opportunity for freedom movements! By Hafeez Hassanabadi

Hafeez Hassanabadi, Translated Articles