سڑاند کی اصل وجہ
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
وہاں اسے بالکل کسی چیلنج کا سامنا نہیں، جو کچھ فوج کرتی ہے یا جو کچھ ماضی میں اس نے کیا ہے، اور یہ ابتداء ہی سے اس ریاست کا فطری منطقی نتیجہ ہے۔قومیں طویل تاریخی اور ارتقائی عمل کی پیداوار ہیں؛ موجودہ دور کی زیادہ تر قومی ریاستیں اسی طرح تشکیل پائیں۔ لیکن جب ریاستوں کی قومیت کو کسی مصنوعی بنیاد پراختراع کیا جائے یا مذہب کی بنیاد پر قائم کیا جائے، جیسا کہ پاکستان، اسرائیل اور یوگوسلاویہ کے ساتھ معاملہ تھا، تو ضرورت کے تحت یہ فاشسٹ ریاستوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں، جن پر جنگی جنون کا ایک نظریہ غالب ہوجاتا ہے۔ سرب اکثریتی یوگوسلاویہ نے دیگر قومیتوں کے حقوق نہیں دیے اور بالآخر بخرے ہوگیا۔ پاکستان نے اسلام کی عظمت کا وارث ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے خود کو بھاری تاریخی فالتو بوجھ کے ساتھ لاد دیا ہے، لیکن پھر کوئی دوسری صورت بھی تو نہیں ہے چونکہ یہی وہ دعویٰ ہے کہ جس کیساتھ یہ اپنے مصنوعی وجود کا جواز پیش کرنا چاہتی تھی۔ اسکے نتیجے میں، پاکستانی حکمرانوں نے اپنی اشرافیہ کے مفادات ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف قومیتوں کے قومی حقوق میں کمی کی، اور انہیں مجبور کیا کہ وہ مذہب کے بینر تلے یکجاہ ہوں اور اسکے پاکستانی قوم پرستی کے نظریے کے برانڈ کو قبول کرلیں۔بلوچ، بنگالیوں، سندھیوں اور ایک مخصوص حد تک، پشتونوں نے خفگی کا اظہار کیا اور مختلف پیمانوں پر اس کے نفاذ کیخلاف مزاحمت کی۔ بنگالیوں کو دوری اور ایک ہمدرد پڑوسی کا فائدہ ہونے کے سبب، وہ 1971 میں اپنے علیحدہ راستے پر چلے پڑے، جبکہ بلوچ نے، آزادی کے ابتدائی عرصے کے بعد سے، انکے مصنوعی طور پر نافذ ایک مسلم قوم کے نظریے کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے، فوجی کارروائیوں کے صدمے جھیلے، اور اب تک اس نے اپنے ایک علیحدہ وجود کی حیثیت کیلئے عزم کو کچلنے کی کوششیں ناکام کیں ہیں۔ سندھیوں نے شروعات میں تو ریاستی سرپرستی میں لائے گئے نظریے کو مان لیا، لیکن آہستہ آہستہ انہیں احساس ہوا کہ یہ انکے مفادات سے موافقت نہیں رکھتی اور تب سے اس کیخلاف مزاحمت کی، تاہم یہ زیادہ سے زیادہ غیرمربوط ہی رہی ہیں۔اشرافیہ، کہ جس نے ایک ریاست پرست اور جنگی جنون کا نظریہ اپنایا ہوا ہے، اسلام کے خود ساختہ محافظ بنے ہوئے ہیں اور ان آدرشوں کے تحت رہتے ہوئے، انہوں اپنے تمام وسائل، دیگر تمام پہلووں کی قیمت پر، اپنے فوج کی تعمیر میں جھونک دیے ہیں۔ مسخ شدہ تاریخ کیساتھ پیسے کا ملاپ کہ جہاں حتیٰ کہ اسلامی تاریخ کے قزاقوں کو بھی ہیرو کی حیثیت عطاء کی گئی ہو اور جس سے وہاں فوج میں ناقابل تسخیریت اور جاہ و جلال کا ایک وہم تخلیق کیا گیا ہو، جو کہ کسی طرح بھی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اس تشیہیر کے زیر اثر رہتے ہوئے، انہوں نے اسلام پسندوں کی مدد و معاونت کی، وہ سب کچھ کرنے کیلئے، جسے وہ کھل کر نہیں کرسکتے تھے، جیسا کہ افغانستان اور کشمیر میں لڑنا، اور یہ دہشت گردی کے ایک اہم برآمد کنندہ کے طور پرمنتج ہوئی۔ دفاع کی دوسری صف کے جوشیلے جنگجووں کی اس کفالت نے ایک عفریت کو جنم دیا ہے، جو کہ فرقہ وارانہ تشدد کے ارتکاب سے ریاست کی انتڑیوں تک کو کھا رہی ہے ۔پاکستان ایک جنگی جنون اور ریاست پرست نظریے کی زیراثر حکومت کے تحت ہے، اور اس کے نتیجے میں فوج قوانین کے دائرے سے باہر ہے۔ وہاں اسے بالکل کسی چیلنج کا سامنا نہیں، جو کچھ فوج کرتی ہے یا جو کچھ ماضی میں اس نے کیا ہے اور یہ ابتداء ہی سے اس ریاست کا فطری منطقی نتیجہ ہے۔ یہاں تک کہ چیف جسٹس بھی لاچارگی سے مانتے ہیں کہ بلوچستان پولیس فوج کے اجازت نامہ کے بغیر چھاونی کے علاقوں میں داخل نہیں ہوسکتی۔ سپریم کورٹ مانتی ہے کہ 381 مغوی بلوچ ہلاک کرکے پھینکے گئے؛ اس میں ڈیتھ اسکواڈ کی جانب سے قتل کیے گئے بلوچ دانشوروں، صحافیوں اور کارکنوں کی تعداد شامل نہیں ہے؛ لیکن کسی پر بھی نہ الزام عائد کیا گیا یا مقدمہ چلایا گیا؛ دردناک طور پر، دس لاکھ روپے کے معاوضہ کی پیشکش کی گئی ہے ، جسے ان کے ورثاء یقینا رد کر دیں گے۔ عدلیہ بلوچ کیخلاف منظم طریقے سے ڈھائے جانے والے ظلم سے اسی طرح نمٹتی ہے۔کوئی بھی ریاست اپنے لوگوں کو ان کے موروثی حقوق دینے سے انکار کرتے ہوئے، جب ان کیخلاف ایک غلیظ جنگ لڑتی ہے، فوری طور پر اپنا قانونی جواز کھو بیٹھتی ہے۔ بلوچستان میں 1948 کے بعد سے ایک غلیظ جنگ چھیڑنے پر پاکستان بھی انسانیت کیخلاف جرائم کا مجرم ہے۔ اس فوج سے جوکہ ریاست کی نظریاتی اور جسمانی حدود کی محافظ ہونے کا دعویدار ہو اور اشرافیہ طبقے کے مفادات کی خدمت گزار ہو، اس سے کسی مختلف طرز عمل کی توقع کرنا خام خیالی ہے۔گوکہ یہ ایک فیشن ہے کہ آج تمام برائیوں کیلئے جنرل ضیاءالحق پر الزام عائد کیا جائے، سڑاندکی اصل وجہ تو بھول ہی چکے ہیں؛ وہ ریاست کے قیام کی بنیاد کا ایک فطری منطقی نتیجہ تھا۔ وہ خود سے نمودار نہیں ہوا تھا اور یہ واقعی حیرت کی بات ہوتی اگر وہ نمودار نہ ہوتا۔ جلد یا بہ دیر، اگر یہ ضیاءنہ ہوتاتو اس جیسا کوئی اور ہوتا۔ فرض کریں کہ کسی نے ایک جھاڑو بنانے والی فیکٹری لگائی ہو، لیکن اس کیلئے عزت اور احترام کے باعث لوگوں کو یہ امید ہو کہ یہ لیپ ٹاپ کی بنائے گی، ایسا کبھی نہیں ہو گا اور یہ صرف وہی بنائے گی جس کیلئے اسے لیس کیا گیاہے۔ جس بنیاد پر پاکستان کی تخلیق کی گئی ہے اور تقسیم کے بعد جس طرح سے ریاست اور معاشرہ منظم کئے گئے، ضیاءاور ان جیسوں کے ظہور کیلئے زمین ہموار کی گئی تھی۔ موجودہ گندگی کی ابتداءاسی نظریے سے ہوتی ہے کہ جسے اپنایا گیا تھا۔ یقینا یہ حیرت کی بات ہوتی اگر چے گویرا یا فیڈل کاسترو جیسا کوئی نمودار ہوتا۔یہاں سب ادارے خود کو ریاست کے تحفظ کے گڑھ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم، یہ تمام گڑھ یعنی عدلیہ، مسلح افواج، سیاستدان اور تنگ، ذاتی اور محدود مفادات کی ہدایات پر چلنے والا میڈیا، ان سب کا انجام ہمیشہ خود کو پاوں پر کلہاڑی مارنے پر ہوتا ہے، اور یہ کسی دوسری صورت میں ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ اپنے تکبر اور دعوائے اتقا کیساتھ ان لوگوں کیلئے جو سزا سے مستثنیٰ طاقت اور دولت کے اس غالب کلچر کے زیر اثر ہوں، سبق سیکھنا چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی تباہی جاری رکھتے ہیں۔ یہ خود تباہی نہ تو حادثاتی ہے اور نہ ہی بنا بنایا، بلکہ یہ اس ریاست کے قیام کی فطری نوعیت اور اس کے حکمران اشرافیہ کے کردار میں شامل ہے۔تاہم، تمام ادارے ایکدوسرے پر برتری اور بالادستی کی کوشش تو کرتے ہی ہیں لیکن حقیقی اقتدار فوج کے پاس ہے، جو مسلح اور منظم ہے۔ تاہم اس بالادستی کو برقرار رکھنے کیلئے یہ طاقت اور تنظیم ریاست کے وسائل کو استعمال کرنے سے آتی ہیں۔ فوج روزِ اول سے بالادست رہی ہے کیونکہ اس ریاست کی بقاءکا انحصار ہتھیاروں کی طاقت کے ذریعے بنگالی اور بلوچ جیسے سرکش قوموں پر اپنے ایجنڈے کو نافذکرنے پر ہے۔ سب باتوں کا انحصار اس چیز پر ہے، جو کچھ فوج سوچتی اور فیصلہ کرتی ہے، پالیسی وہی ہونی چاہئے؛ اسکے پاس ناقابل چیلنچ بالادستی ہے اور جو کچھ بھی اس نے ماضی میں کیا ہے، جو کچھ یہ اب کر رہی ہے، ان کیلئے اسے مکمل استثنیٰ حاصل ہے،اور کم از کم یہ مستقبل کیلئے بھی اسی اسٹیٹس کوو کو بھی برقرار رکھنے کیلئے پرامید ہے۔پاکستانی ریاست نے وسوسے سے بھرپور، جارحانہ وطن پرستی سے لبریز، جنگی جنونیت اور ریاست پرستی کے نظریے کے جس چکی کے پاٹ کو اپنی گردن کے گرد ڈال دیا ہے، جسے یہ نہ پھینک سکتی ہے اور نہ ہی پہنے رکھ سکتی ہے، یہ آہستہ آہستہ اسی کے ساتھ ڈوب رہی ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ، اس کا خیال ہے کہ یہ ان فرسودہ بیساکھیوں کیساتھ لنگڑا سکتی اور زندہ رہ سکتی ہے۔ یہ اس بات کو سمجھنے میں ناکام ہے کہ یہی بیساکھیاں ہی واضح طور پر اسکے اختتام اور انہدام کی وجہ ہیں۔ کسی ملک پر حکومت کرنے کیلئے ضروری عنصر کے طور پر طاقت کا استعمال بالآخر اُلٹا گلے پڑ جاتا ہے اور اس کے وجود کیلئے خطرہ بن جاتا ہے، لیکن اگر ایک بار اسے منظم طور پر استعمال کیا جائے، تو یہ حکمرانوں کے لئے ناممکن ہو جاتا ہے کہ وہ اسکا استعمال کم کردیں اور آخرکار یہی اس کے انجام کا سبب بنتی ہے، جیسا کہ یوگوسلاویہ کیلئے بنی تھی۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز ، اتوار،24 جون، 2012
|
Comments
Post a Comment