بی این پی مینگل کا متوقع فیصلہ خود فریبی کا شاھکارنمونہ

بی این پی مینگل کا متوقع فیصلہ خود فریبی کا شاھکارنمونہ

خودکردہ را علاج ِ نیست ‘‘اور آزادی پسندوں کاموافق موقع ’’

حفیظ حسن آبادی 


بی این پی مینگل کا اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ ایسے متوقع تھا جیسے ہر دن صبح سورج طلوع اور شام کو غروب ہوتا ہے تاہم اس پر بھی کہیں خوش گمان دوستوں کو آخری لمحے تک کسی معجزے کا انتظار رہا جو رونمانہ ہوسکا۔ایسے میں دوباتیں بہت اہم ہیں جن پر بحث کی ضرورت ہے پہلہ یہ کہ اس جماعت نے سرکار کی طرف سے تقریباً دھتکار کے باوجود کیونکراِسی تنخواہ پر رضا مند ہوکر اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا؟ دوسرا صوبائی حکومت کیلئے اُنکا یہ فیصلہ کہاں تک مشکل کشاثابت ہوگا؟ 
1۔اِسی تنخواہ پر رضامندی کی مجبوری: بلوچ سیاست پر سنجیدہ بحث کرنے والے تجزیہ نگار ایک عرصے سے اس بات کی طرف نشاندہی کررہے ہیں کہ یہ جماعت سیاست نہیں تجارت کرنا چاہتی ہے اور یہی اُنکی مجبوری ہے لہذا اُنکا رویہ بھی سیاست میں تاجروں جیسا ہی ہے نہیں تو سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا کم از کم ایسے وقت پر ایسا غیر جمہوری وناپسندیدہ فیصلہ ہرگز نہیں کرتا جس کو نہ عوام کی حمایت حاصل ہے اور نہ ہی اپنے ورکروں کی پشت پناہی۔ 
بلوچ کا قومی و اجتماعی فیصلہ گیارہ مئی کو آیا تھا اگر یہ جماعت اپنے آپکو اس قوم کا قومی و جمہوری جماعت کہتی ہے تواُسے ان دونوں دعوؤں کا پاس رکھتے ہوئے خیرات میں ملی ہوئی سیٹیں واپس کرنا چائیے تھیں۔ قوم کی کم از کم 95% فیصد آبادی ان الیکشنز سے دور رہی جوکسی بھی قوم کا کسی بھی ریاست سے لاتعلقی کے اظہار کا فقیدالمثال نمونہ ہے یہی جمہوری فیصلہ بھی ہے۔ اب جو فیصلہ اس جماعت نے کی ہے ظاہر ہے وہ اُس پچانوے فیصد کی نہیں ہے بلکہ اُ س دو سے پانچ فیصد کی ہے جسکے بارے یہ جماعت یہ کہہ کہہ کرتھک چکی ہے کہ بلوچستان میں ووٹ غیر مرئی قوتوں نے ڈالے ہیں۔بی این پی مینگل کے ورکروں کا بھی فیصلہ پاکستانی اسمبلیوں میں جانے کے حق میں نہیں ہوا ہے جو اُنکے نام سے سنایا گیا ہے مصدقہ اطلاعات کے مطابق اکثر اضلاع نے اپنی جماعت کو اسمبلیاں چھوڑنے اور ہرگناہ سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے جس کے باعث 30,جون کا طے شُدہ جلسہ اور اُس کے اندر اس سے متعلق مشترکہ فیصلے کے اعلان سے اجنتاب کیا گیا کیونکہ اُنھیں پتہ چل گیا کہ اگر ہجوم میں یہ فیصلہ سنائیں گے تو سب اکٹھے ہیں اس فیصلے پر نہ چاہتے ہوئے بھی بحث ہوگی سوالات اُٹھیں گے جنکے جوابات کیلئے قیادت کسی طرح آمادہ نہیں۔پارٹی کے اندر انتشار یا کسی دھڑے بندی کے امکان کو ختم کرنے کیلئے ورکروں کی غیر حاضری میں کسی بحث کا اہتمام کئے بغیراُنکے نام سے اپنا فیصلہ سنایا گیا جوٹوٹل چھ آدمیوں کا ہے ان میں تین وہ ہیں جو اپنی شیروانی سلوا کے حلف وفاداری کیلئے بے تاب ہیں باقی تین وہ ہیں جن میں دو کو سینٹر بنانے کا لولی پوپ سنایا گیا(ایک برسراقتدار جماعت نے سینٹ میں مدد کی یقین دھانی کرائی ہے) ایک وہ جو اُسے کسی بھی عہدے سے زیادہ اپنے ٹھیکوں اور پس دیوار مراعات کی فکر لگی رہتی ہے۔ نہیں تو بلوچستان کے مجموعی حالات میں زرہ بھی فرق نہیں آیا ہے کہ جس کی بنا پر ایسا اہم جلسہ یا میٹنگ موخر کیا جائے لوگ تسلسل کیساتھ اُٹھائے اور شہید کرکے پھینکے جارہے ہیں جس دن ا س جلسہ کے ا نعقاد کا اعلان کیا جارہا تھا اسپلنجی،منگچر،قلات،کوھستان مری و ڈیرہ بگٹی میں آپریشن زورں پر تھی اور بلوچستان کے مختلف حصوں سے چار لاشیں بھی برآمد ہوئی تھیں۔اگر ان حالات میں بھی ایسے اہم میٹنگ یا جلسہ کرانے کا اعلان کیا گیا تو بجاطورپرسوال پیدا ہوتا ہے کہ اب اس سے بڑھکر اور کیا قیامت آئی جو پہلے نہیں آئی تھی اور آپ کی جماعت کی طرف سے ایک دن پہلے یہ اعلان کیا گیاکہ ”30، جون کا پروگرام موخر کیا گیا ہے اور اُس میں ہونے والا مبینہ فیصلہ بھی بعد میں کیا جائیگا“ لیکن اگلے دن 29، جون کو طے شُدہ تاریخ سے بھی پہلے شتاب میں اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ سنایا گیا اس گھتی کووہ خود سلجھائیں کہ وہ کس جمہور، کس قوم اور کون سے پارٹی ورکروں کے رائے کی بات کرتے ہیں؟ 
ایسے فیصلوں کے وقت جب سیاسی جماعتیں معاشرے میں موجود تضادات،ممکنات و محرکات واُنکے اجزائے ترکیبی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھ سکتے یا اُنکا درست تجزیہ و تحلیل نہیں کرسکتے تو یقیناًتنہائی کا شکار ہونے سے نہیں بچ سکتے۔یہ جماعت دو قوتوں بلوچ عوام اور پارٹی ورکروں کی بات کرتی ہے تیسرے(سرکار)کے آس لگائے ہوئے 
ہے۔ سرکار نے اس جماعت کی یہاں آنے کے بعد اپنے رویے کا کھل کر اظہار کیا اب سرکارکو اپنی اہمیت کا احساس دلانے قوم اور ورکر رہ گئے تھے لیکن قیادت کی مسلسل و بے وجہ پسپائی نے اُنھیں اُن دونوں قوتوں سے بھی مکمل طور پر محروم کیا۔ 
2۔ بی این پی (م)کی مددسے صوبائی حکومت کے مشکلات میں کمی کی امکانات: صوبائی حکومت اور ریاست کیلئے بی این پی کا ایسا فیصلہ نمائشی اور اُنکے گناؤں کو درست ثابت کرنے ایک تحفہ ہے جِسے وہ اپنی سول سوسائٹی و دنیا کو گمراہ کرنے مثال کے طورپر پیش کرسکتے ہیں کہ سارے بلوچ آزادی مانگنے والے نہیں ہیں داخلی طور پر صوبائی و مرکزی حکومتیں نہ ان سے کوئی اُمید رکھتے ہیں اور نہ ہی یہ اُنکی مدد کرسکیں گے کیونکہ اب یہ جماعت انتہائی تنہائی اور کسمپری کے عالم میں اسمبلیوں میں جاررہی ہے۔ جس طرح کہ ہمیشہ ناہاقبت اندیشانہ فیصلوں کا انجام برآمد ہوتا ہے یہاں بھی ریاست اوریہ جماعت دونوں تماشا بنے۔اُوپر سے بی ایل اے نے انتہائی بروقت و اہمیت کے اعتبار سے چندایسے حملے کئے کہ جس سے پورے گیم کا کایا پلٹ گیا بلوچ عوام اور سرکار دونوں کے سامنے بی این پی مینگل کے تمام کارڈز میز پر بکھر گئے نتیجے میں قومی و صوبائی اسمبلی کی سیٹیں ہاتھ سے جاتے گئے۔ سوشل میڈیا میں ایک دوست نے اُنکی موجودہ پوزیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم سے کہا: 
”کہ ہاتھی انکے ہاتھ سے نکل گئی ہے اب انھوں نے اُسے دم سے پکڑا ہے شاہد ہاتھی واپس آئے“ 
تو ہم نے جواب دیا 
”ہاتھی دم پکڑنے سے واپس انکے ہاتھ نہیں آنے والا البتہ بہت زور سے کھینچنے سے انکے اُوپر تازہ ”کھاد“کا ڈھیرگراکے انکے ناکام 
کو ششوں کو بدبودار ضرور کرے گا“۔ 

بلوچستان کا مسلہ بہت گھمبیر صورت اختیار کرگیا ہے یہ سارے طفیلی جماعتیں (تمام پاکستانی پارلیمانی سیاست کے حامی بلا امتیاز) ایک دوسرے سے زیادہ مجبور و لاچار ہیں۔نہ ان کاکوئی ویژن ہے نہ ایک دوسرے کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ ہے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے تیار ہیں ویژن نہ ہونے کی زندہ مثال سابقہ حکمرانوں اور موجودہ حکمرانوں کے بیانات میں یکسانیت ہے باہمی زہنی ہم آہنگی کے فقدا کیلئے یہ مثال کافی ہے کہ نگراں وزیر اعلیٰ آخر تک اپنی صوبائی کابینہ تشکیل نہ دے سکا اور موجودہ حکومت کو ابھی تک اپنی کابینہ کی تشکیل میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ یہ لوگ جو اپنی وزارتوں ومراعات سے آگے دیکھنے کی بصیرت نہیں رکھتے یہ بلوچ کے اس بڑے مسلہ کی طرف ہاتھ بڑھانے کی کہاں ہمت رکھتے ہیں۔اختر مینگل کی جماعت کیلئے اپنی عزت بچانے کاایک انمول موقع پیدا ہوا تھا لیکن اُنھوں نے اُسے بڑی لاپروائی سے ضائع کیا۔ پاکستانی اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتے وقت اس جماعت کی قیادت پر کوئی دباؤ نہیں ہوا ہے بلکہ یہ فریب اُنھوں نے خود اپنے آپکودیا ہے اور ابھی تک اس فیصلے کے حق میں جو دلائل دے رہے ہیں اُن کی حقیقت پر اُنھیں خود بھی ایک فیصد اعتبار نہیں۔جو حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں اُنکے مطابق سخت گرمی کی شدت میں کمی آنے کے ساتھ ہی اگست ستمبر سے نہ تھمنے والے حملوں کانیا سلسلہ شروع ہوگا اور صوبائی حکومت اپائج ہو جانے کی طرف اندازے سے زیادہ تیزی سے لڑھک جائیگی۔اس گیم کے تمام کرداروں کا ایسے اپنے آپکو اور ایک دوسرے کو بیوقوف بنانے کا رویہ آزادی مانگنے والوں کیلئے ایک موافق موقع ہے جس کا یقیناً آزادی پسند قیادت کو بخوبی ادراک ہے جو اب اُنکے حملے کم مگر بہت کامیاب اور تیاری کیساتھ ہوتا دکھائی دے رہے ہیں۔تاہم اپنے کیس کو مدلل انداز میں پیش کرنے اُنھیں اپنی نئی حکمت عملی ترتیب دینی پڑے گی اُنکے درمیان ریاست نے گذشتہ ایک دوسال سے غلط فہمیاں پیدا کرنے بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔کئی سنیئر دوست ایسے غلطیوں کا مرتکب ہو رہے ہیں جن کی شک پر افغانستان میں سردار خیر بخش مری نے شیرو مری کے ملاقاتوں پر پابندی لگا رکھا تھا اُس وقت بابا مری کا دلیل یہ تھا کہ شیرو قبیلے میں غلط فہمی پیدا کرکے اُنھیں گزینی و بجارانی میں تقسیم کررہا ہے گو کہ قبیلہ شیرو مری کے آنے سے بہت پہلے ریاستی سازشوں کی زد میں آکر اندر سے بکھر چکا تھا اور اُس وقت قبیلہ اور بلوچ قوم حالت جنگ میں نہیں تھی لیکن آج جب ایک قبیلہ تو کیا پوری قوم مورچہ زن ہے کچھ دوست آزادی کیلئے مرنے والوں کو تقسیم کرکے اُنھیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کیلئے آسان ہدف بنانے کا کام کررہے ہیں ایسے میں خاموشی،مسائل کے حل سے پہلو تہی سیاسی خود کُشی ہو گی جسکا بلوچ قوم کسی طرح متحمل نہیں ہوسکتا۔ 

Comments

Popular posts from this blog

American expected defeat in Ukraine: a golden opportunity for freedom movements! By Hafeez Hassanabadi

Hafeez Hassanabadi, Translated Articles