چارٹر آف لبریشن کی ضرورت و اہمیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حفیظ حسن آبادی



چارٹر آف لبریشن کی ضرورت و اہمیت 
حفیظ حسن آبادی
اس سے پہلے کہ چارٹر آف لبریشن کی ضرورت و اہمیت پر بات کی جائے لازم ہے کہ مختصراً اسکے بنیادی مقاصد پر ایک سرسری نظر دؤڑاکر ایک خلاصہ پیش کریں تاکہ قارئین شعوری طور پر اس بحث کا حصہ بنیں اور ہم کسی کج بحثی سے بچ سکیں کیونکہ ابھی تک ایسے محسوس ہورہا ہے اکثر مبصر سُنی سُنائی باتوں کو لیکر رائے قائم کرنے کی سعی میں لگے ہیں جو کہ ایک جاندار رویہ نہیں ہے اورخاصکر ایسے حالات میں جب بلوچ قوم بے پناہ قربانیاں دے رہی ہےتو بجا طور پر اندھی تقلید اور سیاسی بے راہ روی کی کوئی گنجائش نہیں ہربلوچ کو ہر معاملے میں شعوری طور بحث کا حصہ بنکر اپنےقومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے اپنا کردار ادا کرنا چایئے۔
چارٹر آف لبریشن کا خلاصہ
:حصہ اول بنیادی حقوق
 بلوچ قوم کی سرزمین بلوچستان اُسکے مرضی کیخلاف استعماری سیاست کی نذر ہوکر تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئی ہے اور بلوچ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غلام کیا گیا ہے ۔اگر یہ بات درست اور پوری دنیا مانتی ہے تو بلوچ قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قومی یگانگت کے لئے جد و جہد کرکے خود دنیا کے دیگر بے شمار گم شدہ قوموں کی صف میں شامل ہونے بچانے اپنی آزاد ریاست کے قیام کیلئے دنیا کے مروجہ قوانین کے مطابق جد و جہد کرے۔جوبلوچستان آزاد کی جائیگی وہاں مردو عورتوں کو برابری حاصل ہوگی او ر یہ ’’مساوات معاشرے کے تمام حلقوں میں سماجی، معاشی، تعلیمی، معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی شعبوں میں یکساں ہوگی‘‘ ۔ کوئی کسی سے نسلی یا کسی اور بنیاد پر اعلیٰ و ادنیٰ تصور نہیں ہوگا بلکہ ہر کے قدر و منزلت کا تعین اُسکا معاشرے میں مثبت عمل زاتی محنت و مشقت اور اُس سے معاشرے میں موجود مثبت تاثر اور نتیجے سے ہوگا ۔خیالات پر پہرے نہیں لگیں گے کسی بھی بحث کی گنجائش موجود ہے۔مذہبی آزادی کوریاست یقینی بنائے گی۔ مذہب کوریاست سے الگ کیا گیا ہے تاکہ دنیا کے پیش رفتہ اقوام و مما لک کی طرح لوگ زیادہ آزادی سے بلا خوف و خطر اپنے مذہبی عبادات و دیگر رسومات ادا کرسکیں ۔ اور مذہب کے مقدس نام کو کوئی اپنے گروہی و ذاتی مفادات کیلئے استعمال نہ کر سکے جس طرح پاکستان و ایران میں ہوا ہے جو دنیا میں اُنکے تنہائی اور مذہب کے بدنامی کا سبب بنا ہے۔اس ریاست میں بلاامتیاز سب کے زندہ رہنے کے حق کی گارنٹی ریاست کی پہلی ترجیع ہوگی
حصہ دوئم
جد و جہد کے جامع طریقے  یہ چونکہ قومی آزادی کی تحریک ہے اس لئے اسکے تقاضوں کے عین مطابق معاشرے کے تمام طبقوں کی شمولیت کو خیر مقدم کیا جائیگا اسمیں شامل ہونے کوئی نسلی،جنسی ، لسانی ،نظریاتی و مذہبی بندش نہیں ۔ اور دنیا کے مروجہ قوانین و انسانیت دوستی کے تقاضوں کے مطابق اگر کوئی بین القوامی قوت بھی مدد کی پیشکش کرے گا تو اُسے قبول کیا جائیگا تاکہ بلوچ قوم کم از کم نقصان سے اپنی آزاد ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے۔ یہان دو چیزیں بہت لازم ہیں جو اس پوری تحریک کی بنیاد ہیں پہلہ یہ کہ یہ جد وجہد پوری طرح بین القوامی قوانین کے عین مطابق آگے لے جایا جائیگا دوسرا اس جہد میں شامل کوئی بھی قوت پاکستان یا ایران کے پارلیمانی سیاست کا حصہ نہیں بنے گا اور اسکے اس عمل کوچارٹر آف لبریشن ا ور اس جہد کے روح کے منافی سمجھا جائیگ۔ انسانی حقوق کےادارے طلباء تنظیمیں ٹریڈ یونینز غرض جد و جہد کے وہ تمام حربے استعمال کئے جاسکتے ہیں جو دنیا میں اپنی حفاظت کیلئے اپنائے گئے ہیں ۔
حصہ سوئم 
سیاسی نظام کا جواز : اس پوری جد وجہدکا مقصد بلوچ قوم کو اپنے تقدیر کا مالک بنانا ہےجس کے لیئے لازم ہے کہ آزادی کے بعد لوگ اپنی حق رائے دہی میں مکمل آزاد ہوں ۔ملک میں ایسے انتخابات کرائے جائیں جن کی نگرانی اقوام متحدہ و دیگر بین القوامی غیر جانبدار ادارے و میڈیا کریں ۔ایسے شفاف طریقے سے آئے بغیر کسی بھی پارلیمنٹ کو ملک کے اختیارات ہاتھ میں رکھنے کا قانونی حق نہیں ۔لہذا اب پاکستان اور ایران کی زیر نگرانی میں منتخب نمائندوں کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ وہ قابض ریاست کے مفادات کی نگرانی کیلئے چُنے گئے ہیںگویا آزادی، انسانی حقوق، سماجی انصاف، یکساں مواقع کی فراہمی، اور معاشی قابلیت کے اصولوں پر چلنے والا ایک جمہوری سیاسی نظام ہی آزاد بلوچستان میں رائج کیا جائیگا۔
 
حصہ چہارم
بامعنی جمہوریت اور امن : ایک بامعنی جمہوریت کو یقینی بنانے لازم ہے کہ معاشرے کو ایک جمہوری ماحول فراہم ہو۔ آزاد میڈیا اور صحافت، خود مختار اور آزاد عدلیہ، آزاد اسمبلیاں اور ایسوسی ایشنز، معاشی مواقع میں برابری، موزوں تعلیم اور کثیر الجماعتی سیاست کو یقینی بنا کر ایک بامعنی جمہوری نظام نافذ ہوگی تاکہ معاشرہ، تہذیب، سیاست، قانون، اخلاقیات، زبان، معیشت اور ماحولیات ایک معاندانہ نوآبادیاتی قوّت کے شکنجے سے آزادی کے بعد اطمنان سے ترقی کرسکیں اور جمہوریت کے وہ تمام تقاضے پورے ہوں جنکے لئے قوم آج قربانیاں دے رہی ہے۔اس ضمن میں آزادی حاصل کرنے کے فوراً بعد قابض ریاستوں کے تحویل میں موجو د قیدیوں کی رہائی کو ممکن بنایا جائیگا ،بلوچستان کے تمام گمشدگاں کی بازیابی اور انکے خلاف جرائم میں ملوث عناصر و ریاستوں کو بین القوامی عدالت انصاف کے کٹہرے لانے یو این او کے زیر نگرانی کمیٹی بنائی جائیگی ۔
نئی آزاد ریاست کی تشکیل میں پہلے قدم کے طور پر بلوچستان سے قابض قوتوں کوغیر مشروط پر نکل جانے کا کہا جائیگا بعد میں بین القوامی قوتوں کی ثالثی میں سرحدوں کی حد بندی و حفاظت جیسے دیگر معاملات طے کئے جائیں گے۔نوزائیدہ ریاست میں سیاسی اور قانونی اداروں کے قیام کیلئے بین القوامی مدد کو خوش آمدید کہا جائیگا اور بلوچستان تمام بین القوامی میڈیا،انسانی حقوق کے تنظیموں اور امدادی ایجنسیوں کیلئے کھلا ہوگا اُنھیں کہیں بھی کوئی امر مانع نہیں ہوگا۔ آزادی کی مزاحمتی تحریکوں اور مسلح تصادم کے حوالے سے قابض ریاستوں کے متعلق چوتھے جنیوا کنونشن کی مکمل پابندی کی جائیگی۔ 
حصہ پنجم
آئینی قانون اور انصاف : عوامی جمہوریہِ بلوچستان ایک جدید سیکولر اور جمہوری آئین تیار کر کے اسے اپنائے گی جہاں اقتدار پر ناجائزقبضے کے تمام رستے مسدود کئے جائیں گے ۔ہرشہری کے آزادی اور انصاف کے فراہمی کو آسان و شفاف کیا جائیگا ہرشخص کو اپنے اوپر لگائے الزام کی صفائی میں دلائل و ثبوت پیش کرنے کا مکمل موقع دیا جائیگا اور وہ شخص اُس وقت تک مجرم نہیں کہلائے گا جب تک عدالت نے ثبوتوں کی بنیاد پر اُس کے خلاف ایسا فیصلہ نہیں دیا ہے ۔
کوئی کسی کی نجی زندگی ومعاملات  میں دخل اندازی نہیں کرسکتا کوئی کسی کےجائیداد پر قبضہ نہیں کرسکتاکیونکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے کوئی کسی سے کسی لحاظ سےبھی برتر و بہتر نہیں مانا جائیگا اور قانون سب کو یکساں تحفظ فراہم کرے گی۔سولی پر چڑھا کر سزائے موت، تشدد یا کسی بھی دیگر قسم کے غیر انسانی اقدام کے ذریعے ظالمانہ انداز میں کسی فرد کو زندگی سے محروم کر نےکوانسانیت کی روح، بلوچ اخلاقی ضابطےاوراقدار کےسخت منافی تصور کیا جائیگا۔ہےاور وہ جمہوریہِ بلوچستان میں قطعی طور پر ممنوع ہوں گے۔
حصہ ششم 
حق تلفی کے خلاف اور مساوی مواقع کے حق میں : 
 آزاد اور جمہوری بلوچستان کرپشن کے خلاف ایک مضبوط اور بلا سمجھوتہ نقطہِ نظر رکھے گا اور اس کو ہر سطح پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے ہر کوشش کرے گا۔
 اس مقصد کے حصول کیلئے کسی قومی یا مقامی حکومت کے سول ملازمین کا تقرر کھلے مقابلہ کے ذریعے میرٹ کے بنیاد پر کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ، سول ملازمین کو لازمی طور پر غیر سیاسی اور غیر جانبدار رہنا ہو گا۔ یہ چیز مختلف منتخب حکومتوں کے ساتھ غیر جانبداری کے ساتھ اور منصفانہ ذہن کے ساتھ کام کرنے کیلئے بجا ہے۔
 بلوچستان میں تمام نسلی اور مذہبی اقلیّتوں کو اپنے عقائد پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زبانوں اور روایات کو برقرار رکھنے اور ان کا تحفظ کرنے کیلئے آبادی کے باقی حصوں کی طرح بالکل ایک ہی پیمانے پر ایک جیسے حقوق حاصل ہوں گے۔ خاندانی تعلقات، اقرباء پروری یا طرف داری کے بجائے انفرادی میرٹ کے اصول پرسختی سےکاربندرہنے کو ممکن بنایا جائیگا۔
سولہ سال کی عمر تک تعلیم لازمی اور مفت ہو گی۔ طلباء کی جسمانی اور ذہنی نشوو نما و انکے عزت نفس کی خیالداری ریاست کی پہلی ترجیحات میں شامل ہوگی 
حصہ ہفتم 
مابعدِ حصولِ آزادی :  عوامی جمہوریہِ بلوچستان ایک سول، کھلی رواداری اور جمہوری معاشرہ ہو گا،جہاں ریاستجمہوری اور نجی آزادیوں کا تحفظ کرے گی بشمول آزادانہ ، کثیر جماعتی انتخابات، احتجاج کرنے کا حق، اظہارِ خیال اور صحافت کی آزادی، جیسا کہ یو این کے انسانی حقوق پر عالمی اعلامیہ اور سول اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ میں ان کا احاطہ کیا گیا ہے۔ایک ایسا سیاسی نظام رائج کیا جائیگا جہاں ایک فرد ایک ووٹ کے اصول پر کئے گئے آزاد اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جائیگا۔
 بلوچستان کی قومی اسمبلی (بلوچستان ئے مزنین دیوانبلوچ قوم کا اعلیٰ ترین جمہوری ادارہ ہو گا جو بلوچستان کے لوگوں کے جمہوری حقوق کو یقینی بنائے گا اور ان کا تحفظ کرے گا۔ یہ کسی قسم کے مطلق العنّان سیاسی نظام  کے خلاف قلعے کا کردار ادا کرے گا۔ تمام ریاستی اہلکار اپنے اقدامات کیلئے بلوچستان قومی اسمبلی (بلوچستان ئے مزنین دیوانکو اوربالآخر بلوچستان کے لوگوں کو جواب دہ ہوں گے۔ 
 
بلوچستان کی قومی فوج ، سرمچاروں کےمسلح بلوچ آزادی پسند تنظیموں  مختلف گروہوں میں سے تیار کی جائے گی۔ بلوچستان کی قومی فوج منتخب شدہ سول سیاسی اتھارٹی کا ایک ماتحت ریاستی عضو ہو گا – بلوچستان کی قومی فوج کے دائرہِ کار اور منشور کی تعریف قومی اسمبلی، بلوچستان کے آئین اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ہوگا ۔ یہ فوج بلوچستان کی ریاست، عدلیہ، سول معاشرے اور میڈیا کی قریبی جانچ پڑتال کے تحت اور ان کو جواب دہ ہوگی۔اس فوج کا اوّلین فریضہ بلوچستان کی علاقائی سرحدوں کا تحفظ ہو گا۔ بلوچستان کی مسلح افواج کے اراکین کیلئے ملازمت میں رہتے ہوئے سیاسی، تجارتی یا کسی قسم کی دیگر ملازمت سے متعلقہ سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی ہو گی۔
جرائم کے رو ک تھام کیلئے بغیر لائسنس کے نجی اسلحہ اور کسی قسم کی نجی فوج رکھنا غیر قانونی ہو گا۔اور قبائلی رنجشوں کو ختم کرنے ریاست خصوصی توجہ دے گی تاکہ لوگ آپس کی دشمنیوں میں الجھ کر معاشرے کی تعمیر وترقی کی رفتار کو متاثر نہ کرسکیں۔
حصہ ھشتم
خود مختار ریاستِ بلوچستان : بلوچ جدوجہد آزادی کااصل مقصد بلوچ وطن کے منقسم علاقوں کو دوبارہ بلوچ وطن میں متحد کرکے ایک کامل بلوچ قومی ریاست کی آزاد حیثیت کو تسلم کرانا ہے۔
  بیرونی جارحیت سے تحفظ، داخلی امن و امان کی برقرار ی، انصاف کی فراہمی، فلاحی خدمات کی فراہمی اور بیرونی تعلقات میں توازن ،از سرنو تمام شعبہ ہائ زندگی میں بنیادی ڈھانچوں کی تشکیل ریاست کی زمہ داری ہوگی ۔ 
 
بلوچستان کے تمام شہری بلوچستان کے کسی بھی حصّہ میں سفر کرنے، کسی کاروباری سرگرمی یا کام کے قیام کیلئے آزاد ہیں۔
 بلوچستان میں موجود تمام قدرتی وسائل بلوچستان کے لوگوں کی ملکیت ہیں۔ ان وسائل کا نظم و نسق اور اختیار ریاستِ بلوچستان کے پاس ہو گا۔ ان کا استعمال بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کی فلاح کیلئے ہو گا ۔ کسی دوسرے ملک یا قوم کو اپنے ذاتی فائدہ اور مفاد کیلئے ان وسائل کے استحصال کا حق نہیں ہوگا۔ 
بلوچستان سے نکالے گئے تمام قدرتی وسائل کی بلوچستان اور تمام دیگر اقوام کے مابین تجارت بین الاقوامی اور مقامی منڈی کی قیمتوں کے تحت ہو گی۔
 
حکومتِ بلوچستان سوشل سیکیورٹی کا ایک جامع نظام اور ایک فلاحی ریاست کا نظام متعارف کروانے کی ذمہ دار ہے۔جسکے تحت ریاست بچے ،بزرگ شہری ، معذور افراد ،کمزور اور بلانمائندہ گروہوں کےمعاشی ،سیاسی و سماجی تحفظ کا زمہ دارہوگا۔
 
بلوچستان کی آزاد ریاست اُن سابقہ قابض قوتوں سے معاوضہ کا تقاضا کرے گی جنہوں نے بلوچستان کو لوٹا ہے اور اس کے قدرتی وسائل کو چھینا ہے۔
ریاست بلوچستان ان لوگوں کے اوّلین اہلِ کنبہ کی معاونت کیلئے ایک فنڈ قائم کرے گی جنہوں نے ہماری مادر وطن کی آزادی کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کی
حصہ نہم
سماج، معیشت اور ماحول : 
 بلوچ زبانیں بلوچی اور براہوی بلوچستان کی قومی زبانیں ہوں گی۔ انگریزی ثانوی سرکاری زبان اور بین الاقوامی میدان میں رابطہ کاری کا ذریعہ ہو گا۔
بلوچستان ایک مخلوط معیشت کا کردار ادا کرے گا جہاں معیشت کے نجی، سرکاری اور رضاکار شعبہ جات ملک میں مروجہ قوانین کے اندر رہ کر فعال ہو ں گے۔ 
"
ما چکیں بلوچانیبلوچ جدوجہد آزادی کا ترانہ ہے۔ آزاد بلوچستان کے قومی ترانہ کو بلوچستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی یا بلوچستان کی قومی اسمبلی منتخب اور منظور کرے گی۔
 
بلوچ جدوجہد آزادی کا جھنڈا جو کہ بڑھتی ہوئی تعداد میں اپنایا جاتا رہا ہے تین حصّوں پر مشتمل ہے۔ مرفاع کے برابر میں ایک ستارے کے ساتھ ایک نیلے رنگ کا تکونا امتیازی نشان خصوصی علامت (یا چارج کے طور پر ہے ۔ تکونے امتیازی نشان سے لے کر پھریرے تک ، دو افقی پٹّیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اوپر والی افقی پٹّی سرخ ہے اور نیچے والی افقی پٹّی سبزآزادی تک یہی جھنڈا ہوگا ۔آزاد بلوچستان کے قومی جھنڈے کا فیصلہ اور منظوری بلوچستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی یا بلوچستان کی قومی اسمبلی کرے گی۔
ہماری آزادی کی بحالی کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے والے ہماری آزادی کی جدوجہد کے جانثاروں کی قومی یاد منانے کا منتخب شدہ حتمی تاریخ 13 نومبر کو ہوگی۔ 1839 میں اس دن میر محراب خان اور ان کے کئی سپاہیوں نے سلطنتِ برطانیہ کی حملہ آور فوج کے خلاف بلوچستان کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ 
 
آزادی حاصل کرنے کےفوراً بعد بلوچستان میں سے تمام جوہری سرگرمیوں کے خاتمے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے فوری اقدام کیا جائے گا۔ بلوچستان میں، جوہری تجربات بلوچ عوام کی خواہشات کے برخلاف اور ان کی اجازت کے بغیر کئے گئے تھے۔ بلوچستان کے عوام اور ان علاقوں کی ماحولیات پران تجربات کے اثرات پر اقوامِ متحدہ سےایک غیر جانبدارانہ تفتیش وتحقیق کی درخواست کی جائے گی۔ وہ علاقےجو کہ تابکاری کے زہر یلے اثرات سے آلودہ ہوئے ہیں ان کو صاف کیا جائے گا اور ماحول کو پہنچنے والے نقصان اور ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں پر شعاعوں کے اثرات کا تعین کرنے کیلئے ایک غیر جانبدار سائنسی تحقیق کی جائے گی۔ بلوچ عوام کے خلاف اس جُرم کی ذمہ دار ریاست کو جواب دہ ٹھہرایا جائے گا اور بین الاقوامی نظامِ انصاف کے ذریعے انصاف  ومعاوضہ کا تقاضا کیا جائے گا۔  
حصّہ دھم  
عبوری آئین : 
 اس منشور کے نافذ ہو جانے کے بعد بلوچستان کے عبوری آئین کا مسودہ تیار کرنے کیلئے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔اس آئین میں بلوچ عوام کے وہ حقوق اور ذمہ داریاں شامل ہوں گی جن کا تصوّر اس منشور میں پیش کیا گیا ہے۔عبوری آئین ایک جدید جمہوری ریاست کے ترقی پسند عوامل اور بلوچستان کی انوکھی تاریخ، تہذیب، حالات اور ضروریات کو یکجا کرے گا۔
-----------------------------------------------------------------
یہ تھا چارٹر آف لبریشن کا مختصر خلاصہ جسے پڑھکر صاحب نظر لوگوں کے زہن میں یقیناً چند فطری اور اہمسوال اُٹھتے ہوں گے کہ ان باتوں میں سے کس بات سےاعتراض کرنے والوں کو اعتراض ہے ؟ اس میں شامل کونسا نکتہ ایساہے جو اس جد و جہدکے روکے منافی ہے؟ ۔اس میں کو نسی ایسی بات موجود ہے جو بلوچ نفسیات ،سیاسی ،سماجی و اقتصادی تقاضوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔کیا یہ وہی مطالبات و خواہشات نہیں ہیں جو قوم نے بارہا دہرائے ہیں جنہیں اس چارٹر کمیٹی نے صرف یکجا ہ و ترتیب دینے کی کوشش کی ہے ؟ ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن جماعتوں یا لیڈروں کی طرف سے شعوری یا لاشعوری طور پر اس دستاویز کے خلاف ایک مہم چلائی جارہی ہے وہ بھی اس کے کسی ایک نکتہ سے بھی عدم اتفاق کا اظہار نہیں کرسکتے ۔ اور ہم یہ بات وثوق کے کیساتھ کہتے ہیں وہ جہاں بھی جائیں گے نئے بلوچستان بارے ان نکات سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کہہ سکیں گے۔
تاہم اس دؤراں کچھ باتیں اس تواتر سے دہرائی گئیں کہ ہمیں اس سے پہلے بہت کچھ لکھنے کے باوجود پھر سے لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ بات کیا جاتا ہے کہ اس چارٹر نے قوم میں انتشار پیدا کیا ہے ؟ ہمیں یقین ہے کہ ایسا کہنے والوں کی اکثریت نے دوسروں کے سنے سُنائی باتوں کے زیر اثر ایسا تاثر قائم کیا ہے اگر وہ خوداِسے پڑھتے یقیناً ایسی بےمنطقبات نہیں کرتے ۔مذکورہ دستاویز میں بلوچ قوم کی غلامی، اس سے نجات کی راہیں اور اسکے بعد اسکے تعمیر کے خدوخال ہیں۔ ایک دستاویز جسکی روح یہی ہے کہ بکھرے بلوچستان کو مشترکہ قوت سے یکجاہ کیا جائے اس سے انتشار کیسے پھیلایاجاسکتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اگر انتشار پہلے سے ہمارے زہنوں میں موجود ہو تو وہ کسی نہ کسی بہانے خود کا اظہار کربیٹھتی ہے۔ یہ ایک ایسا دستاویز ہے جو دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی فورم میں بلا امتیاز کہ آپ کس پارٹی یا تنظیم سے ہیں بلوچ وطن کے تعمیر میں تمہاری وکالت کرتا ہے وہ کیسے تمہیں انتشار کی طرف لے جائیگا ؟
کچھ دوست کہتے ہیں اس کی ترتیب سے پہلے سب کو بلا کر سب سے مشورہ لینا چائیے تھا بعد میں اس کو بنانا تھا ۔بظاہر یہ ایک معصومانہ خواہش معلوم ہوتا ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ پاکستانی کمیٹی در کمیٹی اور معاملات سردخانوں میں ڈالنے کی ہماری کمزوری ہماری روحوں کے اندر بھی جاگزیں ہوچکی ہے ۔اور جو چیز ہمیں نہیں کرنا ہوتا ہے اسکے لئے ایسی راہیں بتاتے ہیں جن سے ہمیں سو فیصد یقین ہوتا ہے کہ اس ڈگر پر چل کر ضرور الجھا جائیگااور بات ہماری بد نیتی کے بجائے مدمقابل کے نااہلی پر ٹکے گی اور دنیا ہمارے رویے کے بجائے پیش کرنے والے کی نالائقی پر نالاں ہوگا۔
کیا یہ دوست نہیں جانتے کہ بلوچستان میں نواب اکبر خان بگٹی جیسا زیرک مدبر اور مدلل لیڈر شاہد صدیوں میں پیدا ہو جب آپ نے بھی کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اِسی مذکورہ بالا فارمولے کے تحت سب کو بلایا قومی ضرورتوں اور وقت کے تقاضوں سے آگاہ کرتے ہوئے سنگل پارٹی بنانے کا تجویز رکھا اور اسکے لئے سب سے پہلے اپنی جماعت کےتحلیل و ضم ہونے کا پیش کش کیا لیکن جواب میں کسی نے کہاکہ لیڈر کون ہوگا؟ تو کسی نے کہا اسکی کوئی ضرورت نہیں آپ جو فیصلہ کریں گے ہم آپکے ساتھ ہیں اگر آپ پر ایک گولی چلے گی تو ہم دس گولیاں چلائیں گےلیکن یہی لوگ جب باہر نکلے توسب نے کہا نواب بگٹی پھنس گیا ہے اس لئے ہمارا سہارا لیکر اسلام آباد کو بلیک میل کرنا چاہتا ہے ۔بعد میں اپنے تماشائی بننے والی کردار اور غائبانہ نماز جنازہ کا ڈرامہ بازیوں سےاپنی بد نیتی ،منافقت و سیاسی مفت خوری کی خواہش ثابت کرگئے۔ سنگل پارٹی بنانے سے بہانہ بناکر بھاگنے والے شروع ہی سے ساتھ نہیں تھے بلکہ اُنکا مقصد صرف اور صرف نواب بگٹی و دیگر کی قربانیوں کو کیش کرنا تھا اس سے زیادہ کچھ نہیں۔یا دوسرے لفظوں میں اُنھوں نے اس بلوچی دیوان میں صرف اس لئے شرکت کی کہ لڑے بھی بگٹی ہارے بھی بگٹی لیکن اگر جیتے تو ہم کسی نہ کسی طرح شریک رہیں ۔
ایک بہت ہی حاجزانہ سوال ہے اگر نواب صاحب انکے جھوٹے وعدوں اور بعد میں دیکھیں گے جیسے باتوں کیلئے رُکتے تو آج بلوچ قومی تحریک آزادی اتنی منزل طے کرچکی ہوتی ؟یقیناً نہیںویسے بھی پوری دنیا میں ایسے کاموں کا طریقہ کار یہی ہوتاہے کہ جس کا آئیڈیا ہوتا ہے وہ اُسے ترتیب دے کر پیش کرتا ہے جس پر بعد میں بحث مباحثہ ہوتا ہے اُسمیں کمی بیشی کی جاتی ہے ۔ہاں اگر ایسا دستاویز تیار ہوتا اور کسی کو اسمیں اضافہ یا کٹوتی کا اجازت نہیں ہوتا تب اُنھیں یہ سب کچھ کہنے کا حق تھا جو اب کہہ رہے ہیں۔کچھ لوگ تو اس حد تک زیادتی کرکے کہتے ہیں کہ منشور اُسکے بنانے والوں نےمقدس کتاب بنایا ہے ۔بات بالکل ایسی نہیں بات صرف اتنی ہے کہ جو چارٹر اس کمیٹی نے بنائی ہے اگر آپ اس سے متفق ہیں تو چلو اِسی کو روڈ میپ مان کر اسی کی روسے جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بلوچستان کو اس منشور سے ہٹ کر کسی دوسرے شکل میں دیکھنا اور چلانا چاہتے ہیں وہ روڈ میپ ہمیں دے دیں ہم آپ کے روڈ میپ کو بھی دیکھیں گے ویسے بھی اسمیں دو نکات کے علاوہ باقی سب کچھ تبدیل کیا جاسکتا ہے اگرچارٹر بنانے والے اس دستاویز کو مقدس کتا ب کہتے یا سمجھتے تو وہ کسی کو اسمیں ردوبدل کی اجازت نہیں دیتے ۔
کچھ دوست کہتے ہیں بس یہ دستاویز متنازعہ ہوگیا اسکو چھوڑیں ، ہے نا جہالت کا شاھکار جملہ جب کوئی چیز قوم کے سامنے پہلی بار یکم مارچ کو پیش ہوا وہ ایک دوسال پہلے کیسے متنازعہ ہوا ؟ اُنکا ایسا کہنا خود اُنکے اپنے سابقہ دلیل کی منافی کرتا ہے کہ اِسے قوم سے منظور کرانے کی ضرورت تھی لو یہ دستاویز آپکی فرمائش پر قوم کے سامنے پیش خدمت ہے قوم باشعور ہے وہ خود اِسے پڑھے ،اپنی رائے قائم کرے اور ہم سب کی راہنمائی بھی کرے ۔اس منشور کا بلوچ قوم کے سامنے پیش کرنا اور انھیں مکمل بحث کا حصہ بنانے کی کوشش ایک ایسی نیک خواہش ہے کہ کوئی بھی لیڈر قوم کے پیچھے چھپ کر اپنی انا کی تسکین یا سماج میں جوابدہی سے بچنے اپنے کسی غیر سیاسی عمل کو عوامی و قومی نہ کہہ سکے۔اس سے پہلے اس پر اعتراض کرنے والوں کے سیاسی رویے کااحاطہ کریں پہلے یہ بات ضرور کہیں گےکہ چارٹر کےمخالفین کو ریشہ دوانیوں کا موقع چارٹر کمیٹی کے دوغیرضروری و غلط اقدامات نے دئیے۔ ان دو غلطیوں سے چارٹر مخالفین نے جہاں تک ممکن ہوا فاہدہ اُٹھایا اور ایک جاندار و سیاسی بحث کے بجائے کج بحثی میں ایک بیزاری کی کیفیت پیدا کی جو کسی حد تک مجموعی مایوسی کا سبب بھی بنا ۔ چارٹر کمیٹی کی پہلی غلطی یہ تھی کہ اُنھوں نے اِسے مختلف لوگوں کو پیش کیا جبکہ چارٹر کو کسی کو پیش کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی خاصکر خان قلات اور اختر مینگل کو تو قطعناً پیش نہیں کرنا چائیے تھا ۔ خان قلات کو اس لئے نہیں کہ آپ ایک فرد ہیں اوراس کے لئے یہ دلیل دی جائے کہ وہ آزادی کی بات کرتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے دیگر لوگ بھی ہیں جو آزادی کی بات کرتے ہیں جب آپ اُنکو یہ دستاویزپیش نہیں کرتے تو یہاں یہ رعایت کیوں ؟ ۔اختر مینگل کو اس لئے پیش نہیں کرنا چائیے تھا کیونکہ اُنھیں و چارٹر پیش کرنا ایک مصنوعی دباؤ کا نتیجہ تھا چارٹر گروپ کو دباؤ میں آئے بغیر اس جماعت بارے اپنے رویے کو ٹھیک ایسے رکھنا تھا جیسے دیگر تمام پاکستانی پارلیمانی سیاست کرنے والے جماعتوں کے بارے میں رکھتا ہے یہ پریشر گروپ پہلے اختر سے اتحاد کیلئے دباؤ بڑھا رہا تھا اب دیکھا کہ اختر کی براہ راست حمایت نا ممکن ہے تو یہ جاوید مینگل اور مہران مری کیساتھ اتحاد پر زور دے کر تمام صفوں میں بدنظمی پھیلانے مصروف ہے۔ اس پریشر گروپ کا مقصد اور کچھ نہیں صرف یہی ہے کہ اصل آزادی پسند لوگوں کے درمیان اُنکا کوئی ضرور موجود ہو تاکہ بہ وقت ضرورت حسب سابق تحریک کو اسلام آباد کی جھولی میں ڈالا جاسکے ۔ چارٹر کو انھیں پیش کرنے کے بجائے براہ راست شائع کرکے عوام کے سامنے ایسے پیش کرنا تھا جیسے اب کیا جاچکا اور اُس وقت بھی یہی دعوت دی جاتی کہ آپ جو بھی تجویز دیں گے اُنھیں چارٹر کمیٹی دیکھے گی بلکہ یہ کہ وہ آن دی ریکارڈ اپنے تجاویز میڈیا کے زریعے بھی شائع کرواسکتے ہیں۔ دوسری غلطی پہلے والے سے کئی زیادہ سنگین تھی کہ اِسے لیڈروں کو پیش کرنے کے بعد عوام کے سامنے لانے میں تاخیر ہوئی۔ جس سے جن بد نیت لوگوں کو آپ کے ساتھ آنا نہیں تھا اُنھوں نے عوام کے پیچھے چھپتے ہوئے اسکے خلاف تاویلیں تلاش کی کہ پوری قوم کا معاملہ ہے لہذا قوم کے سامنے پیش کرنے سے پہلے ہم کیسے اسکے بارے میں رائے دے سکتے ہیں جبکہ اُنکے قوم  دوستی کا یہ عالم تھا کہ  اُنھوں نےعام آدمی تو در کنار اُنکے سینئر تریں و تجربہ کار تریں مرکزی ممبران تک کو نہیں دکھایا گیا تھا۔ ڈیڑھ برس پہلے اُس وقت میری عیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے محترمہ نائلہ قادریسمیت چند بی آر پی اور بی این پی مینگل کے سینئر دوستوں سے چارٹر بارے فیڈ بیک کا کہا تو جواب میں سب نے یہی کہا کہ اُنھیں ابھی تک چارٹر پارٹی کی طرف سے نہیں ملاہے گو کہ اُس وقت ان جماعتوں کی قیادت کو یہ چارٹر ایک سال پہلے پیش کیا جاچکاتھا۔ اگر یہ دستاویز صرف اُن لیڈروں تک محدود رہی ہے اور اُنھوں نے اپنے سینئر ممبراں تک کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے تو ایسے لوگ کس بنیاد پر پوری قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کرکے کسی دستاویز کے متنازعہ یا غیر متنازعہ ہونے کا کہہ سکتے ہیں۔
بعد میں جب ان دوستوں کو چارٹر پہنچایا گیا تو محترمہ نائلہ نے ایک سیاسی ورکر کی حیثیت سے نہ صرف اِسے پڑھا بلکہ اس پر اپنی مدلل رائے بھی دی اور اپنے تجاویز چارٹر کمیٹی کو بھیجے جسکی پاداش میں اُسے پارٹی سے نکالا گیا یہی حال اب کئی دیگر سینئر دوستوں کا ہے جو جونہی لب کشائی کرتے یا سیاسی طرز اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اُنھیں واجہ کے بکریوں کا چرواہا سمجھ کر چلتے بنو کا کہا جاتا ہے۔ اگر ان سینئر دوستوں کو وقت پر چارٹر دیا جاتا اور اس پر تمام تر تعصبات سے پاک واقعی سیاسی بحث مباحثہ ہوتا اور اُس بحث مباحثہ کے نتیجے میں ایک رائے قائم کی جاتی تو یقیناً آج ایسے قدم اُٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی جس سے کسی جمہوری پارٹی میں ڈکٹیٹر شپ قائم ہونے کے تاثر سے پارٹی کی ساق کو ہمیشہ کیلئے نقصان پہنچتا ۔
اِسے ہماری مجموعی بد نصیبی کہیئے کہ ہمارے اکثر دوست ابھی تک قبائلیت کے سوچ کی گرفت سے آزاد نہیں ہو سکے ہیں بات جمہوری سیاست کی کرتے ہیں لیکن مزاج و اقدامات شہنشاؤں جیسے ہیں ۔ بات گروہی سیاست سے نکلنے کی کرتے ہیں لیکن خود گروپوں سے نکل نہیں پاتے دوسروں کو سیاسی رویہ اپنا کر ہر بات اداروں کے تابع کرکے فیصلوں میں توازن لانے کی کہتے ہیں لیکن اپنے تمام فیصلے ذاتی ہوتے ہیں نہ کسی کو خاطر میں لاتے ہیں نہ کسی سے تبادلہ خیال کرتے ہیں، سب کو رائے دینے اور تعمیری تنقید کا کہتے ہیں لیکن ہر بات اور تنقیداُس وقت ناقابل برداشت ہوتی ہے جب بات اُنکے کوتائیوں کی طرف مڑ جائے ،بات اتحاد و اتفاق کی کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ہر اُس عمل کی طرفداری کرتے ہیں جس سے راستے کبھی ملنے نہ پائیں ۔
حرف آخر: بلوچ قوم نے بڑی مشکلوں سے یہ توجہ حاصل کیا ہے اس وقت اس کارواں کو اس پڑاؤ سے آگے لیجانا ہے لیکن تحریک کے’’ اجزائے ترکیبی‘‘ اُسکی موجودہ ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں یہی وجہ ہے کہ کچھ غیر اہم ،غیر ضروری و مکمل طور پر سیاسی طالع آزما ؤں کی خاطر اصل قوتیں آپس میں گتھم گھتا ہیں اور ایک دوسرے پر سنگ باری کی جارہی ہے جسے کچھ لوگ صفائی کا عمل کہتے ہیں اور وہ ایک حد تک بجا بھی ہیں لیکن یہ صفائی کا عمل اگر حد سے زیادہ لمبا ہوگیا تو صفائی کے ساتھ چمڑی بھی اُترجائیگا ۔اسمیں طالع آزماؤں کا کچھ نہیں بگڑے گا اگر نقصان ہوگا تو سب سے پہلے قوم کا اس قومی تحریک کیساتھ ہوگا۔ آج بلوچ قومی تحریک کو حقیقی طور پر اداروں کی ضرورت ہے جو اُسکے ہر شعبے کو جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق پیشہ ورانہ طور پر چلائیں اب اسکا پھیلاؤ بہت وسیع ہو چکا اِسے اس طرح’’ شوقیہ فنکاروں ‘‘سے چلایا نہیں جاسکتا پالیسی ساز اداروں اور موثر پروپگنڈہ مشنری کی ضرورت ہے۔چارٹر آف لبریشن تاحال واحد ایسا دستاویز ہے جس کو بنیاد بناکر تمام اصل آزادی پسند قوتیں اپنی اپنی صف بندیاں کرکےایک دوسرے کیساتھ مشترکہ جد وجہد کی راہیں تلاش کرسکتی ہیں ۔ اس دستاویز کو کسی ایک فرد سے منسوب کرکے ’’بغض معاویہ ‘‘ کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے وسیع النظری سے اسکا مطالعہ کرکے اِسے مکمل کیا جائے اگر کہیں کسی کو کوئی کمزوری یاخامی نظر آتی ہے ۔

بحث سمیٹتے ہوئے ایک بہت ہی تلخ حقیقت دوستوں کو بتاتا چلوں کہ دنیا آج بھی بلوچ کیساتھ ہمدردی ضرور رکھتا ہے لیکن اُسکےآزاد ریاست بنانے کے خواہشوں کی تکمیل کیلئے ابھی تک تذبذب کا شکار ہے ۔بلوچ کو اُسے قائل کرنے واقعی ایک چارٹر کی ضرورت ہے تاکہ اُسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ ہم جس بلوچستان کے بنانے کی حمایت کریں گے اُسکے چلانے والے کون لوگ ہوں گے اور انکے سیاسی ،معاشی و سماجی خیالات کیسے ہیں اور وہ خود اپنے تصورات سے کس حد تک مخلص ہیں اگر ہماری حالت یہی رہی کہ ایک جگہ پانچ آدمی ہوکر چھ جماعتوں میں تقسیم ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت ہماری بد اعمالیوں کی سزا سے ہمیں نہیں بچا سکتا۔

Comments

Popular posts from this blog

American expected defeat in Ukraine: a golden opportunity for freedom movements! By Hafeez Hassanabadi

Hafeez Hassanabadi, Translated Articles