بلوچ آزادریاست کی مخالفت !ہند،افغانستان و برطانیہ کی تاریخی غلطی حفیظ حسن آبادی



بلوچ آزادریاست کی مخالفت !ہند،افغانستان و برطانیہ کی تاریخی غلطی

حفیظ حسن آبادی

جب بهی زخموں سے تلملا کربلوچ قوم نے آواز بلند کی ہے تو پاکستانی حکام کی طرف سےانهیں بیرونی طاقتوں کا آلہ کار کہہ کر ان کے جد و جہد کو کم ارزشت کرنے کی سعی ہوئی ہے۔امریکہ روس اسرائیل سب پروہاں دخل اندازی کاالزام لگایاگیاہے مگر ہندوستان اورافغانستان پریہ الزام مستقل رہا ہےکہ  وہ پاکستان کو غیرمستقم کرنے بلوچوں کی مدد کرتے ہیں
جبکہ اصل حقیقت یہ کہ بلوچ قومی تحریک آزادی  تواُس وقت سے جاری وساری ہےجب برصغیربرطانیہ کے زیر تسلط تھا اور پاکستان دنیا کےنقشے پرنمودار بهی نہیں ہوا تھا۔ پاکستان کے اس الزام کے جواب میں ہندوستان اور افغانستان نےہمیشہ دفاعی پوزیشن لیکر کسی بھی مداخلت سے انکار ہی کیا ہے۔ حالا نکہ ہندوستانی اور افغان قیادت کواپنی تاریخی غلطی کااحساس کرکے اسکی درستگی کرکےکهل کربلوچ تحریک آزادی کااخلاقی و سفارتی مدد کرنا چائیےتها۔ آج  جویہ ریجن  پاکستان کے ہاتھوں آگ کی لپیٹ میں ہے اسکی ذمہ داری اس وقت کےبرٹش،ہنداور افغان قیادت پریکساں عائدہوتی ہے اگروہ یہاں برصغیر بٹوارے اور انگلستان کے یہاں سے جاتے وقت درست فیصلہ کرکے بلوچ کی آزادریاست کی حمایت اور بعد میں اس پرجبری قبضہ کے خلاف اٹھتے آواز کی حمایت کرتے تو پاکستان نہ افغانستان میں قتل و غارت وافغان نسل کشی کواپنا زریعہ معاش بناکر دنیاکاامن برباد کرتا نہ ہند میں بمبئی جیسے حملوں کاخطرہ انسانیت کومسلسل خوف میں مبتلا رکھتانہ بنگال میں تین ملین بیگناہ انسانوں کے قتل اورلاکھوں  دوشیزاؤں کی عصمت دری پر تاریخ شرمندہ ہوتی اور نہ ہی پاکستان بین القوامی دہشتگردوں کا جنت بنتا ۔
یاددہانی کیلئےشائداتناکافی ہوکر بلوچ قیادت برطانیہ کے جانے کے بعد اس کوشش میں سرگرداں تھی کہ کس طرح اپنے  علاقے واگزار کرکےبلوچستان کی تشکیل نوکی جائے جوانگریز سرکار کی آمدسےپہلےتھی جسےبلوچ قوم کی مرضی کے برخلاف مختلف معاہدات کے تحت ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اسکی وحدت کو ناقابل تلافی نقصان
پہنچا یاگیاتها۔ہندکی قیادت نےمولانا ابوالکلام آزاد کی زبانی اس بہانے کو دلیل کے طور پیش کیاکہ بلوچ اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکیں گے اور انهیں شائدبرطانیہ سےاپنےدفاع کیلئے کوئی معاہدہ کرنا پڑے یوں ہندوستان کسی بهی صورت اس ریجن میں کسی سامراجی قوت کی موجودگی کو برداشت نہیں کرے گا۔برطانیہ بهی بلوچ کیساتھ اپنا کیاہوا معاہدہ بھول کرخاموشی سےچلا گیا حالانکہ وہ بلوچ کے ساتھ معاہدہ 1876شق نمبر 3کےتحت اس بات کا پابند تها کہ بلوچ ریاست کی خودمختاری پر حملے کی صورت میں اس کا ہرلحاظ سے مدد کرے گامگر وہ بلوچ قوم کی بائیں بازو کیطرف جھکاؤسےخائف پاکستان کی طرف سےحملہ آور ہوکر قبضہ کرنےپرتماشائی بنارہا۔افغانستان جسکے ساتھ بلوچوں کےدیرینہ معاہدات ودوستانہ تعلقات تهے اور وہ ماضی میں کئی بار ایک دوسرے کی مدد بهی کرچکے تهے اس بار بلوچ قوم کوکسی بهی وقت سے زیادہ افغان مددکی ضرورت تھی مگر آغا عبدالکریم خان کوافغان حکمرانوں کی طرف سے مثبت جواب نہیں ملا۔اس وقت حالات اس حدتک ساز گار تهے کہ اگر ہند، برطانیہ یاافغانستان کوئی ایک بهی مستقبل کاخیال رکهکر بلوچوں کے آزادی کی حمایت کرتا تو بلوچستان پرقبضہ کرناناممکن ہوتا۔ 1948ءمیں جس افغانستان نے نوزائیدہ  اسلامی برادر ملک (فقط نام کا )پاکستان کیلئے بلوچوں کو میدان میں اکیلا چھوڑاآج اُسی پاکستان نے اُسے سب سے زیادہ تباہ و برباد کیا جس ہند نے بلوچوں کو پاکستان کے ساتھ نبھا کرنے کی طرف بزور دھکیلا آج اُسی پاکستان کی وجہ سے گذشتہ ستاسٹھ برسوں سے بے چینیوں کا شکار کھربوں ڈالراپنے غریبوں کا پیٹ کاٹ کر دفاعی مد میں خرچ کرچکا ہے اور یہ بے چینیاں اور یہ اضافی و غیر ضروری اخراجات اُس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک پاکستان اِسی  متنازعہ جغرافیہ کیساتھ دنیا کے نقشے پرموجود رہے گا۔برطانیہ اور پورے مغرب کی سردردیاں بھی علاقائی ممالک سے کم نہیں ۔
یورپ نے اپنے معاشی و سماجی ترقی سے جنگوں کو اپنی سرحدوں سے بہت دور دھکیلا ہے مگر یہ پاکستان  ہی ہےجو یورپ سمیت دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی بھی تخریب کاری ہو اُس کے پیچھے بلواسطہ یا بلاواسطہ ضرورہاتھ رکھتا ہے۔ان کے علاوہ سوویت یونین  بھی بلوچ بارےدرست پالیسی بنانےناکام ہواجسکا خمیازہ اسے افغانستان میں عبرت ناک شکست کی صورت میں ملا۔ اس نے بلوچ آزادی بارے حقیقی وزمینی حقائق کی روشنی میں حکمت عملی بنانے کے بجائے پاکستان کمیونسٹ پارٹی اور دیگرنام نہاد بائیں بازوکے دانشور ولیڈروں کے تشریحات کو اپنی پالسیز کابنیاد بنایااوراس تصوراتی ملک(سوشلسٹ پاکستان ) کی تعمیر کا فرمائش کیاجس کو بلوچ ووہاں آباد دیگرقومیتیں ملکر بنائیں نتیجے میں پاکستان میں تو سوشلزم نہ آسکا البتہ  سوویت یونین افغانستان میں زبردست انٹری اوربےپناہ سرمایہ خرچ کرنے کے باوجود شکست کے ساتھ بے نیل و مرام لوٹ کر تاریخی بکھرنے کے عمل سے گزر گیا اور پوری دنیامیں طاقت کےتوازن کے بگڑنے کاسبب بنا۔آج شائد یہ رائےرکهنے میں کم لوگ ہم سے متفق ہوں مگرہمیں یقین ہےاگربلوچ بارے سوویت یونین اورافغان قیادت دوسری مرتبہ (اَسی کی دھائی میں )بھی  اس سےبڑهکرسوچنےآمادہ ہوتے کہ بلوچوں کو کرایہ کےسپاہی کے طور نہیں ایک ایسی قوم کی صورت دیکهاجائے جونہ صرف آزادی چاہتے ہیں بلکہ وہ اس کے بجا حقداربهی ہیں تو یقیناً بلوچ کارویہ افغانستان میں سوویت یونین کی موجودگی ایک تماشائی سے بڑھکر مضبوط اتحادی جیساہوتااسمیں بھی دورائے  نہیں کہ بلوچ اپنی جنگ لڑتا مگر اس کا براہ راست فائدہ افغانستان اوراس کےاتحادیوں کوہوتا۔
آخر میں یہ کہتا چلیں کہ اس مختصربحث کامقصد یہ ہےکہ  ممتاز بلوچ آزادی پسند رہنما حیر بیار مری کے دو آخری بیانا ت کی درست درجہ بندی اور آج کے عالمی حالات اور بلوچ سیاست کے ماضی حال و مستقبل کے تناظر میں تعصب سے پاک کھلی آنکھوں سے پڑھنااور سمجھنا چائیے جہاں آپ اپنے ایک بیان میں برطانیہ سے اُس کے بلوچ حکمران خان خدائیداد خان سے کئے 1876ءکے معاہدے اور اُس کی پاسداری کی یاد دہانی کراتے ہیں جبکہ دوسرے بیان میں ہند سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچ بارے لجائی شرماتی موقف رکھنے بجائے ایسا دوٹھوک موقف اپنائے جیسے پاکستان کشمیر کے بارے میں رکھتا ہے۔بلوچ رہنما کا بیان ایک ایسے وقت آیا ہے جہاں نہ صرف اصلاح احوال ممکن ہے بلکہ اس بات کی بروقت و ٹھیک نشاندہی ہے کہ آج دنیاایک بار پھر اُس موڑ پر کھڑی ہےجہاں  سب کو درستگی  کا یکساں موقع فراہم ہے۔آج علاقے میں خراب تریں حالات کے باوجود حالات  پھربهی مکمل طور پر کنٹرول میں ہیں اور پاکستان اپنی تمام تر نیرنگیوں کےباوجودکوہستان مری، ڈیرہ بگٹی آواران وغیرہ میں کو بانی جیسی صورتحال پیدا کرنے کامیاب نہیں ہواہے۔اگردنیااسی طرح تماشائی بنارہاتواسےیہ دن بهی دیکھنے پڑیں ہےکہ پاکستانی فورسز داعش یاکسی اورنام سےبلوچ زکریوں اور وہابیوں سے ہٹ کردیگر فرقے کے لوگوں کا قتل عام کریں اور وسائل سے مالا مال اس پورے ریجن کو ایسی دوزخ بنادیں جو ساری دنیا کاسکون غارت کردے۔اُس وقت یقیناً دنیا بلوچ بارے ایسا موقف اختیار کرے گی جس طرح آج کردوں  کے بارے میں اختیار کیا ہوا ہے مگر اسمیں خدشہ یہ ہے کہ اُس وقت بلوچ اپنے اور دنیا کے امن کی ضمانت میں وہ کردار اداکرنے کی پوزیشن نہ میں ہو کیونکہ  وہ اس وقت عالمی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فعال تریں کردار ادا کرنے کے باوجود سب کے توجہ و مدد سے محروم دنیا کے ایک ایٹمی طاقت سے نبردآزما ہیں ۔جس کا ادراک عالمی اور علاقائی قوتوں کوپانی سر سے گزرنے  پہلے کرنا چائیے۔     (ختم شُد)

Comments

Popular posts from this blog

American expected defeat in Ukraine: a golden opportunity for freedom movements! By Hafeez Hassanabadi

Hafeez Hassanabadi, Translated Articles