‘‘ڈاکٹر مالک کےنشست کے نیچے ’’ٹائم بمب اور کاؤنٹ ڈاؤن گھڑی کی ٹِک ٹِک
‘‘ڈاکٹر مالک کےنشست کے نیچے ’’ٹائم بمب
اور کاؤنٹ ڈاؤن گھڑی کی ٹِک ٹِک
حفیظ حسن آبادی
‘‘ڈاکٹر مالک کےنشست کے نیچے ’’ٹائم بمب
اور کاؤنٹ ڈاؤن گھڑی کی ٹِک ٹِک
حفیظ حسن آبادی
ڈاکٹر مالک کی وزارت اعلیٰ کے مشکلات اُن مشکلات سے بھی سوا ہیں جن پر ہم ریاست کے پلان اے اور پلان بی کے بارے میں اپنے سابقہ مضامین میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں ۔ہم ذاتی طور پر میاں نوزشریف سے ایک ایسی غیرسیاسی فیصلے کی توقع ہی نہیں کرتے تھے جو آگے چل کر خود اُنکے لیئے مزید مشکلات کا سبب بنے یہاں بلوچ و بلوچستان کے مفاد کا کوئی بات بھی نہیں کیا جاسکتا جو نہ پہلے کسی کی ترجیع تھی نہ کل ہو گی بلوچ پہلے سےمررہا ہے وہ اپنی آزادی کیلئے آزادی تک قربانی دیتا رہے گاپاکستان اوربلوچوں کی راہیں کب کے الگ ہو چکی ہیں اب اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ یہ کہ اس عمل کو کم از کم نقصانات کےعوض انجام تک پہنچانے کاہے تاکہ کل کے تعلقات کو آج کا روگ ناقابل اصلاح نہ بنائے۔لیکن جو نتیجہ لاہور کے طویل مباعث کے بعد سامنے آیا اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ اُن قوتوں کا ہے جو ابھی تک حکومت کرتے آئے ہیں اور جنکی نظر میں بلوچستان مال غنیمت کے طور پر اُنھیں ملی ہے
اُن قوتوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اُنکے طے کردہ فارمولے پر عمل کرنے سے بلوچستان ایک مقتل میں تبدیل ہوگیا ہےاور دنیا اُسکی تشویشناک حالت پر غم و غصے کا اظہار کررہی ہے۔اُنھیں جس غرور و گمھنڈ نے وہاں سب کچھ روندنے آمادہ کیا تھا وہ پاکستان کا کمر ٹوٹنے کے قریب پہنچنےکے بعد بھی برقرار ہےنہ اُنھیں اپنے کئے پر پشیمانی ہے اورنہ وہ اپنا رویہ ترک کرنے آمادہ ہیں جسکا اظہار اُنھوں نےڈاکٹر مالک کے وزیراعلیٰ بنانے کی شکل میں کیا۔ یہاں ایک ضروری سوال پیدا ہوتا ہے جسکا جواب دینا لازمی ہےکہ ڈاکٹر مالک ایک سیاسی ورکر ہے اُنکا لانا کیسے غیر سیاسی ہوگیا ؟ اس پر عرض ہے کہ جو لوگ بلوچ سیاست اور اُسکے اجزائے ترکیبی اور اُسکے اندر تضادات اور اُنکے اندر ٹھکراؤکی کمیت و کیفیت کا ادراک رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر کسی کو صرف ان باتوں پر وزارت اعلیٰ سونپ دیا گیا ہے کہ وہ سیاسی آدمی ہے یا مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے تو وہ لوگ بڑی غلطی کربیٹھے ہیں اور اُنکا یہ دلیل کہ بلوچ مسلے کا حل کسی تعلیم یافتہ یا ان پڑھ یا متوسط یا اعلیٰ طبقےکے پاس ہے ایک بار پھریہ ثابت کرتی ہے کہ وہ بلوچ مسلے کو سمجھنے سے یکسر قاصر ہیں یا سب کچھ جاننے کے باوجود دوسروں کو بیوقوف بنانے ایسی صورت بناتے ہیں
جس طرح سورج کو انگلی سے چھپایا نہیں جاتاعین اِسی طرح بلوچ کے قومی مسلے کو تسلیم نہ کرنے یا اُسے کم اہمیت کرنے سے اُسکی شدت و اثرات کو کم نہیں کیا جاسکتا۔پاکستانی حکمران مانیں نہ مانیں یہ اُنکی مرضی یا مجبوری لیکن حقیقت یہ کہ بلوچ مسلہ اب بہت بڑھ چکا ہے وہ اِسے تسلیم کریں نہ کریں لیکن یہ مظہر الشمس ہے کہ بلوچ قومی مسلہ نے داخلی حدود کو عبور کیا ہے۔ اب آتے ہیں اصل بحث کی طرف کہ ہم نے کن بنیادوں پر اپنے پچھلے مضامین میں اس حد تک کہا کہ ڈاکٹر مالک کو وزیر اعلیٰ بنانا اتنا احمقانہ فیصلہ ہے کہ اگرکوئی ایک جگ’’ کوہی بھنگ‘‘ پی کر بدمست ہوجائے تب بھی یہ فیصلہ نہیں کرے گا
بحث کو آگے بڑھانے پہلے یہ واضع کردیں کہ بلوچستان کا مسلہ نا طبقاتی نہ معاشی جس کو ٹھیک کرنے یا ایک طبقے کو برطرف کرکے دوسرے کو حکومت سونپنے سے مسلہ حل ہوجائیگا یا ایک معاشی نظام کو تبدیل کرکے اُسکی جگہ دوسری متعارف کرنے سے بات بن جائیگی یہاں مسلہ ایک ملک پر قبضہ اور اُسکے آزادی کا ہے پاکستان کے حاکم بلوچ کو آج تک اس بات پر قائل نہیں کرسکے کہ ہم کیوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں اور بلوچ کا پاکستان کیساتھ کیا رشتہ ہے ؟ اب وہ کون سی بات ہے جو ڈاکٹرمالک بلوچوں کو کہیں گے جو ثناء زہری ،چنگیز مری یا کوئی اور نہیں کہہ سکتا تھا؟ دوسری بات وہ کونسی خصوصی صفت مڈل کلاس وزیر اعلیٰ کے پاس ہے جو بلوچ آزادی پسند قیادت کو بیٹھنے راضی کرے گا جو اُسکے پیش رو نہ کرسکے یا اسکی جگہ کوئی اور بیٹھنے والا نہیں کرسکتا تھا؟ جب آپ ان ابتدائی باتوں پر چند سیکنڈ غور کریں گے تو پتہ چل جائیگا کہ نیشنل پارٹی نے بظاہراسلام آباد کو چکمہ دیا اور اُسے اپنے جھوٹ کو سچ ماننے آمادہ کیاکہ وہ یہ کام کرسکیں گے یہ الگ بات ہے کہ یہ اپنے ہر بیان میں یہ کہنا بھی نہیں بھولتے کہ اسمیں ہمیں مرکز اور عسکری قیادت کے مدد کی ضرورت ہوگی تو سادھا سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ معاملہ اُنکی دلچسپی کے بغیر ناممکن ہے تو وہ یہ دلچسپی اپنی پارٹی کو حکومت سونپتے ہوئے بہتر انداز میں کرسکتے تھےاگر اُنھوں نےعددی برتری رکھنے کے باوجود آپکو یہ کام سونپ دیا ہے اسکا مطلب ہی یہی ہے کہ آپ جانیں آپ کا کام اگر ہم کرسکتے تو اب تک انتظار نہیں کرتے
جو لوگ چھ ماہ سال بعد حالات کے تجزیے کی قدرت رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ آئندہ دنوں ریاستی تھنک ٹینکس اور نیشنل پارٹی کی قیادت کے پاس بدترین مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ نہ ڈاکٹر مالک یا کوئی اور آزادی پسند قیادت کو بات کرنے راضی کرسکے گا نہ بلوچستان میں حالات میں بہتری آئیگی نہ ریاستی بربریت میں کمی واقع ہوگی نہ بیرونی سرمایہ کار سرمایہ کاری کا سوچیں گے نہ امن و امان میں بہتری آئیگی نہ بلوچوں میں موجود غم و غصے میں کمی آئیگی بلکہ ان تمام منفی رحجانات و اقدامات میں کم از کم از تیس چالیس فیصد اضافہ ہوگا اُسکی وجہ یہ ہے کہ مڈل کلاس وزیر اعلیٰ کیساتھ کم از کم چھ نئے مسلے سر اُٹھائیں گے جو پہلے سے مخدوش حالات کو مزید ابتر کرنے کا سبب بنیں گے ۱) بلوچستان میں بلوچ و پشتونوں کے درمیاں کئی مختلف النوع مسائل پیدا کئے جائیں گے جو اس سے پہلے نہیں تھے یا جن کے اُبھار کی خواہش ریاستی میڈیا کے زریعے ہوتی تھی(جسکی تفصیل میں جانا پسند نہیں کروں گا ) ۔ (ب ) پنجابی آباد کارجو کسی جاسوسی یا بلوچ دشمن سرگرمی میں ملوث نہیں اب بھی بلوچستان میں آباد ہیں اور اطمنان سے اپنا کار و بار جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اب اُنھیں’’ نامعلوم لوگ ‘‘ اس لیئے نشانہ بنائیں گے اگر اُنکا دکان یاجائداد کسی کو بھا گیاجو ظاہر ہے نوازشریف یا کسی بھی پنجابی کو پسند نہیں ہوگا اس میں کوئی بعید نہیں کہ اس کام کیلئے کوئی فرضی بلوچی نام بھی استعمال کریں ۔ ( پ ) پہلے عام بلوچ زیر عتاب تھا اور بلوچ بیوروکریٹ سر جھکائے جی حضوری میں مصروف تھا اب اُن پر عرصہ حیات مزید تنگ کیا جائیگا (یہاں یہ تلخ حقیقت زیر بحث نہیں کہ اب بھی کوئٹہ سیکرٹریٹ میں اکثریت غیروں کی ہے اور باقی تمام اہم محکمے بلوچوں کے ہاتھ میں نہیں رہے ہیں) اُنکی بے چینی پہلے سے موجود بے چینی میں اضافہ کا سبب بنے گی۔( ت ) یہ کہ بظاہر مسلم لیگ کے بلوچ قیادت نے بڑے پن کا مظاہرہ کرکے اقتدار نیشنل پارٹی کو دے دیا لیکن ہم یہ بات یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ نوازشریف کی اس ’’سخاوت‘‘ کو کبھی بھی قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ نواز شریف یا کسی اور کی نسبت بہتر جانتے ہیں کہ نیشنل پارٹی نے یہ کہکرکہ ہم آزادی پسندوں کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں اُنکی قیادت کو اُلو بنایا وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان باتوں میں ایک فیصد بھی حقیقت نہیں کہ کوئی کام نیشنل پارٹی کرسکتی ہے ہم نہیں کرسکتے تھے۔یہ حکومت شامل ہوتے ہوئے بھی کسی عدم اعتماد یا ٹھکراؤ تک طرح طرح کے مشکلات پیدا کریں گے تاکہ اُنھیں اپنے اُس بات کو سچ ثابت کرنے کا موقع ملے کہ ہم سے ناجائز طور پر وزارت اعلیٰ لیا گیا۔ ( ٹ ) کمزور وزیر اعلیٰ ہونے کی وجہ سے( جو بیک وقت پختونخواہ عوامی ملی پارٹی و مسلیم لیگ دونوں کے احسانات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے) اس بات کا قوی امکان ہے کہ بلوچوں کی بے پناہ قربانیوں کے بدلے ہرطرف پھیلی ہوئی آگ کو بجھانے مرکز فراغدلی کا مظاہرہ کرے لیکن بلوچ کے نام پر آئے ہوئے فنڈز بلوچ علاقوں میں خرچ نہیں ہوں گے۔ ( ث ) بلوچ آبادی کواقلیت میں تبدیل کرنے کئی سازشیں کی جائین گی جو ہر بلوچ کو جھنجوڑ کے رکھدے گا اور اسکے اثرات غیر معمولی بھی ہو سکتے ہیں ان چھ اضافی مسائل کےعلاوہ چند دوسرے مسائل بھی پیدا کئے جائیں گے جن پر ہم کھلے مضمون میں بحث کی گنجائش نہیں دیکھتے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تمام مسائل اُن مسائل کے سوا ہیں جو ابھی آزادی کی تحریک کی شکل میں موجود ہیں جنہیں حل کرنا پاکستان کے بس سے باہر ہے۔کیااُن مسائل کی موجودگی میں کوئی زی الشعور آدمی اپنے لیئے اتنے سارے مشکلات پیدا کرنے کا سامان کرسکتا ہے ؟ یقیناً نہیں!
ڈاکٹر مالک کے بٹھانے والے جب تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کرتے کہ اُنکا مقابلہ آدمیوں سے نہیں ایک فکر سے ہے وہ اِسی طرح ایک غلط فیصلہ کے بدلے دوسرا غلط فیصلہ کرتے رہیں گے۔ جو بلوچ تحریک آزادی کے مہمیز کا سبب بن سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ بلوچ قیادت پاکستانی حاکموں کی طرح گروہی ، ذاتی و ثانوی مسائل میں الجھنے کے بجائے مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے میں کامیاب ہوجائےاور وہ غلطیاں نہ دہرائیں جوماضی قریب میں بی این پی مینگل کے ’’کالی کارتوسوں ‘‘ کی وجہ سے پیدا ہوکر حقیقی ہمسفروں کے درمیاں دوریوں کا سبب بنے تھے
ماما قدیر کوپہلے دھمکی پھر خوش آمد
کونسا حربہ ہوگا کار آمد ؟؟
حفیظ حسن آبادی
آج وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک نےکوئٹہ میں گمشدگاں بازیابی کیمپ کا دورہ کیا تو اس خبر کوپاکستانی میڈیا نے سارا دن اس انداز اور اس لہجے سے پیش کیا جیسے موصوف نے سب سے بڑا مسلہ حل کیا کیونکہ اُنکی نظر میں گمشدگاں کا مسلہ اتنا اہم نہیں جتنا ماما قدیر و دیگر مظلوم لواحقین کا احتجاجی کیمپ کا ختم ہونا اہم ہے جس نے پاکستان کو پوری دنیا میں جوابدہی پر مجبور کیا ہے۔اُنکی نظر میں بلوچوں کو کسی نہ کسی طرح اصل موضوع سے ہٹا کر اسکی جزیات میں الجھاکر لولی پوپ و جھوٹی تسلیوں سے بہلا کر کام چلایا جائے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگرگمشدگاں کا مسلہ نواب رئیسانی لشکررئیسانی و پی پی پی کی مرکزی حکومت ساتھ ملکر حل نہ کر سکے تو ڈاکٹر مالک کیا پیش رفت کرسکیں گے جب اُسے حکومت مسلم لیگ نون اور پختونخواہ کی احسانات سے ملی ہے ۔اگر بلوچستان کا مسلہ یا گمشدگاں یا مسلہ اتنا آسان ہوتا تو پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی جماعتیں اورسیاسدان حضرات کریڈٹ لینے تمام حدود پار کرتے ہیں اتنی بڑی کامیابی کا سہرا نیشنل پارٹی کے سر سجانےکیسے رضا مند ہوتے ؟ یقیناً نہیں! یا وسرے لفظوں میں یہ مسلہ حل نہ ہونے کی سوفیصد اطمنان کیساتھ یہ زمہ داری نیشنل پارٹی کو سونپی گئی ہے ۔ بلوچستان میں چونکہ بلوچ گمشدگاں و مسخ شدہ لاشوں کے گرنے کےمسائل کو پہلے نمبر پر بتایا جاتا ہے اس لیئے ڈاکٹر مالک نے اس سلسلے میں سب سے آسان کام سے آغاز کیا اور چلکرگمشدگاں کے کیمپ پہنچ گیا حالالنکہ وہاں جانے سے پہلے لاشیں گرانے اور بیگناہ لوگوں کو اُٹھانے کا سلسلہ بند کرنا زیادہ اہم تھالیکن چونکہ وہاں موصوف کا زور نہیں چلتا لہذا یہاں کا رُخ کیا جو ڈاکٹر مالک کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ اپنے پیاروں کو دیکھنے بیقرار ہیں اُن سے ہمدردی کااظہارکرنے عام نیک دل رکھنے والے لوگ روزانہ جاتے ہیں وہ خود بے اختیار ہوتے ہیں اُن سے کوئی گلہ کیا بھی نہیں کیا جاسکتا اور اُنکے نیک خواہشات پر مبنیٰ چند کلمات سے ان غمزدہ لوگوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں لیکن جب ’’صوب‘‘ کا وزیر اعلیٰ بھی خالی ہاتھ جاکرخالی وعدہ کرتا ہے تو اس سے اُنکے زخموں پر نمک پاشی ہوتی ہے یہ بنیادی مسلہ نہیں بلکہ اُس مسلہ کے اثرات میں سے ایک ہے اس لیئے اصل مسلہ بلوچ قوم کی غلامی کا ہے جو ایک خالص سیاسی مسلہ ہے اور اسکے حل کیلئے صوبائی سطع پر بیٹھے کسی بھی چیف منسٹر یا گورنر کا کوئی کردار ہو نہیں سکتا۔ نہ ہی اسکے حل کیلئے کسی مرکزی حکومت کے خواہش کے عمل دخل سے کوئی فرق پڑنے والا ۔ایک ریاست کے مقبوضہ ہونے کا معاملہ قابض ریاست کے مجموعی ریاستی پالیسی سے براہ راست تعلق ہےاگر اُسمیں فرق کا امکان نہیں اس کا مطلب ہے یہ پتھر جہاں پڑا ہے وہیں پڑا رہے گی۔
Comments
Post a Comment