محض ایک رسم
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ : لطیف بلیدی
صوبائی حکومت اعلانیہ طور پر مانتی ہے کہ معاملات میں انکا کوئی عمل دخل نہیں ہے، اور ایف سی بلوچستان میں ایک متوازی حکومت چلارہی ہے
جیسا کہ متوقع تھا، نئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا، ”میں دوٹوک یہ اعلان کرتا ہوں کہ بلوچستان کا مسئلہ میری ترجیحات کی فہرست میں شامل ہے اور میں نے ناراض بلوچ رہنماوں کو حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کیلئے مدعو کیا ہے تاکہ جلد از جلد اس بحران کو حل کیا جائے۔“ انہوں نے اس افسوس کا بھی اظہار کیا کہ بلوچستان کو ماضی میں کم ترجیح دی گئی ہے، اور اسی وجہ سے، اسکی پیشرفت بہت سست رہی ہے۔ کوئی بھی شخص جو بلوچ کی جانب پاکستانی ریاست کے رویے اور سلوک سے ناواقف ہو، جب ان اعلانات کو سنے تو اسے یہی لگے گا کہ ایک بالکل نئی بلوچ دوست پارٹی اور ریاستی اپریٹس وجود میں آچکی ہے اور بلوچ کیخلاف منظم محرومی اور منظم تشدد کی پالیسی فوری طور پر ختم ہو جائیگی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حقیقت بالکل مختلف ہے۔ یوسف رضا گیلانی، جو کہ گزشتہ چار سال سے اقتدار میں تھے، انکا تعلق بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا اور اپنے پورے دور اقتدار میں، اگرچہ انہوں نے اپنی اس سلگتی ہوئی خواہش کا بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ بلوچ کیلئے روئے زمین پر ایک جنت تخلیق کریں گے، انہوں نے بلوچ کیخلاف بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سربراہی کی۔ اور اس نئے تکیہ کنندہ کی مدت کے دوران یہ عمل کسی طرح سے بھی مختلف نہیں ہو نے جارہی۔
بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے وعدوں کی یہ رسم افتتاحی تقاریب کا حصہ ہے، یہ بالکل اسی طرح ضروری ہے جیسا کہ نئے تقرر شدہ صدور اور وزراءاعظم کیلئے کراچی میں جناح کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ ریاستی دہشت گردی سے تباہ شدہ بلوچ عوام کیلئے دودھ اور شہد کی نہروں کے وعدے آخر تک محض زبانی جمع خرچ ہی رہیں گے، کیونکہ لوگوں کے حقوق اور ریاست کے استحصالی مفادات مکمل طور پر متصادم ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ریاست بلوچستان کے وسائل میں دلچسپی رکھتی ہے، نہ کہ اس کے لوگوں میں۔ سرد مہرانہ اور بے اصول اعمال، اگر کوئی ہوں بھی، تو ہمیشہ یہ وعدے انہی پر منتج ہوئے ہیں اور ان سے بلوچ غصہ ٹھنڈا نہیں ہونے جا رہا۔
بلوچ جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے تکیہ کنندہ نے کہا کہ ”فوج کے انخلاءاور فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کی تعیناتی نے ٹھوس نتائج لائے ہیں۔“ بلوچ جوکہ گزشتہ 18 ماہ کے دوران اپنے 500 سے زائد اغواء اور مارپھینکے گئے پیاروں پر ماتم کر رہے ہیں، اور پورے 830 دنوں سے پریس کلبوں کے باہر ہزاروں غائب افراد کیلئے احتجاج کررہے ہیں، اس کیلئے ایف سی اور فوج کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، مگر پھر بھی وہ اس کی خدمات کو مثبت قرار دیتے ہیں۔ تو پھر اگلا قدم یہ ہوگا کہ بلوچستان میں ایف سی کو اسکی سرگرمیوں کے اعتراف میں اس سال کے نوبل امن انعام کیلئے بطور ایک امیدوار سرکاری سطح پر نامزد کیا جائے گا۔
بلوچستان پر وزیر اعظم کے اجلاس میں قانون نافذ کرنے والے مختلف ایجنسیوں کے سربراہوں سے جب لاپتہ افراد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے نامعلوم عناصر کی اُن کوششوں کیخلاف شکایت کی جو اِن پر تہمت طرازی اور اِنہیں بدنام کررہے ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایک مضبوط قانونی ٹیم بنائی جائے گی جو وہاں ایجنسیوں کے کردار کا دفاع کرے، جسکا انکے مطابق درحقیقت مطلب یہ ہے کہ انہیں مظالم کیلئے سزا سے مزید استثنیٰ دی جائے گی۔ قابل ذکر طور پر، ان ایجنسیوں نے اب تک بلوچستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ایک بھی مجرم کو گرفتار نہیں کیا ہے، تاہم وہ ان بلوچوں کو تلاش کرنے میں ماہر لگتے ہیں جو اپنے ان بھائیوں کی حمایت کر رہے ہیں جو کہ ان کیلئے ایک باوقار اور آزاد زندگی کے ناگزیر حق کیلئے لڑرہے ہیں۔ تاہم اس اجلاس میں کافی حیرت انگیزطور پر ایک ارب روپے ڈیرہ بگٹی کے داخلی طور پر بے گھر ہونیوالے افراد کے لیے مختص کیے گئے، اس طرح سے باضابطہ طور پر آئی ڈی پیز کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے، خاموشی سے یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ فوجی آپریشن اتنا شدید تھا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بے گھر ہوئی ہے ۔
اسلام آباد اور کوئٹہ دونوں میں موجود سویلین حکومتیں بلوچستان میں ایک صفر سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں ہیں؛ وہ بلوچستان میں فوج کی طرف سے قائم حکمرانی کی عملداری کے خوف میں بااحترام کھڑے رہتے ہیں اور اطاعت شعاری سے تمام حکومتی شعبوں میں اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، حتیٰ کہ اگر وہ چاہیں تو تب بھی بلوچ کی جانب اس منظم اور باقاعدہ ظلم و ستم کی پالیسی اور نقطہءنظر کو بدلنے کیلئے، جو پاکستان کی شناخت رہی ہے، وہاں کوئی بھی سیاستدان کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ خالی وعدوں کے علاوہ یہ بدبخت وزیر اعظم اور کچھ بھی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ بھی اپنے باقی تمام پیشرووں کی طرح فوج کی خواہشات کے آگے سر تسلیم خم کرے گا، جوکہ ان سب پالیسیوں پر عملدرامد کی ہدایت دیتے اور انکا رخ متعین کرتے ہیں کہ بلوچستان میں کیا ہونا چاہئے اور کیا نہیں ہونا چاہئے۔ یہ فوج ہی ہے جو کہ کوئٹہ میں پالتو جانوروں کی نمائش جیسے معمولی تقاریب تک کو منظم کرتی ہے، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سویلین غیر ضروری اور فالتو ہیں۔ صوبائی حکومت اعلانیہ طور پر مانتی ہے کہ معاملات میں انکا کوئی عمل دخل نہیں ہے، اور ایف سی بلوچستان میں ایک متوازی حکومت چلارہی ہے۔
گورنر ذوالفقار مگسی حال ہی میں وفاق کے ہاتھوں نظرانداز کئے جانے پر نالہ کناں ہوئے؛ انہوں نے بلوچستان کے جائز حقوق پر وفاق کے انکار پر گریہ و زاری کی اورخبردار کیا کہ اس طرح کی پالیسیاں وہاں کے لوگوں کیلئے احتجاج کرنے کے اعتدال پسند طریقوں کو اپنانا مشکل بنا دیں گی۔ انہوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ لوگ تو پہلے ہی سے یہی کر رہے ہیں اور اس کے بدلے میں وفاق نے ان کیخلاف ایک منظم ’غلیظ جنگ‘ چھیڑ رکھی ہے۔ بدقسمتی سے، وہ اور وزیر اعلیٰ محض اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ فنڈز جاری ہوں اور بلوچ عوام کے حقوق اور وسائل پر منظم حملے کے بارے میں وہ کچھ نہیں کررہے ہیں۔ مسائل سے مکمل طور پر لاپرواہ، جو کہ بلوچ عوام پہلے ہی سے ایف سی، فوج، کوسٹ گارڈ وغیرہ کی غیر ضروری اور غیر معمولی موجودگی کی وجہ سے سامنا کر رہے ہیں، جسکے نتیجے میں لوگ خوف و ہراس اور دردِ زَہ میں مبتلا ہیں، بلوچستان کی جگرسوز حکومت نے حب سے چمن تک نیٹو کی گاڑیوں کی حفاظت کیلئے ایف سی کی 30 پلاٹونوں کی تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے۔
الفاظ ان اصل زخموں کیلئے مرہم اور بام کا کام نہیں کر سکتیں جو بلوچ عوام کو ان کیخلاف متعدد فوجی آپریشنوں اور فعال امتیازی سلوک سے لگی ہیں۔ جو مظالم ان پر ’قومی مفاد‘ نام پر ڈھائے جارہے ہیں، ان سلگتے ہوئے بلوچ احساسات پر، کھوکھلی، بار بار دہرائی جانیوالی بات چیت کی پیشکش کا کوئی اعتبار نہ ہوگا اور نہ ہی لاپتہ افراد پر کمیشن کی تشکیل کا کوئی تخفیفی اثر ہوگا۔ مطالبات اور شکایات پر عدم توجہی نے بلوچ کو عملی طور پر نا انصافیوں کی مخالفت کرنے اور تمام دستیاب ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے انکی تلافی کرنے پر مجبور کردیا ہے.
امریکی انسداد غلامی کے حامی فریڈرک ڈگلس (1817 تا 1895) کا یہ اقتباس ناقابل تردید طور پر بلوچستان کی موجودہ صورت حال کا خلاصہ ہے۔ ”جہاں انصاف سے انکار کیا جائے، جہاں غربت کو جبراً لاگو کیا جائے، جہاں جہالت حاوی ہو، اور جہاں کوئی ایک طبقہ یہ سمجھتا ہو کہ سماج ان کو لوٹنے، ان پر ظلم کرنے، اور ان کو نیچا دکھانے کی ایک منظم سازش ہے، تو نہ افراد اور نہ ہی املاک محفوظ ہو نگی۔“
وہ لوگ جو بلوچستان میں حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں، انہیں اغواء اور قتل کے ذریعے دہشت زدہ کیا جاتا ہے۔ جبر میں اضافہ کیساتھ، فطری طور پر بد اعتمادی اور شکوک و شبہات میں بھی وحشتناک حد تک تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پھر بھی، عجب طور سے، دونوں اسلام آباد اور کوئٹہ میں بیٹھے حکمران، اس بات کو کو سمجھنے میں ناکام ہیں کہ اتنا زیادہ معصوم خون کے بہانے کے بعد اب بلوچ احساس عداوت حق بجانب طور پر سرکش ہوچکی ہے اور مفاہمت کے جو شرائط پاکستانی ریاست کے ذہن میں ہیں تقریباً ناممکن ہو چکی ہیں۔ بظاہر بلوچستان میں عنقریب امن آنے والا نہیں ہے۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
mmatalpur@gmail.com
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 8 جولائی، 2012

Comments

Popular posts from this blog

American expected defeat in Ukraine: a golden opportunity for freedom movements! By Hafeez Hassanabadi

Hafeez Hassanabadi, Translated Articles