غیر موثر اور بیکار معاہدات کا فائدہ کیا؟

تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
بلوچ کو 1948 کے بعد سے ریاست کے ہاتھوں شدید اذیتیں جھیلنا پڑیں لیکن انہوں نے اپنے وقار کوبرقرار رکھا اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی ثابت قدم جرات کا مظاہرہ کیا۔ بلوچ میتوں پر گریہ گری کو کمزوری کی علامت سمجھتے ہیں
تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز برتاو یا سزا کیخلاف معاہدہ، جسے تشدد کیخلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، ایک بین الاقوامی انسانی حقوق سے متعلق دستاویز ہے جسکا مقصد دنیا بھر میں تشدد کی روک تھام ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسے 10 دسمبر، 1984 کو منظور کیا؛ اسکا نفاذ 26 جون، 1987 کو عمل میں آیا۔ 26 جون کو، تشدد کے متاثرین کی حمایت میں بین الاقوامی دن کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان نے 17 اپریل، 2008 کو اس پر دستخط کئے اور 3 جون، 2010 کو اسکی توثیق کی۔ اس نے یہ دن بلند خان کی تشدد زدہ اور گولیوں سے چھلنی لاش کو مستونگ کے علاقے دشت میں پھینک کر منایا، جسے کوئٹہ سے پانچ روز قبل اغواء کیا گیا تھا۔اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد پاکستانی ریاست نے بلوچستان میں اسے صریحاً روند ڈالا ہے۔ 2010 ءمیں 103 لاشیں ملیں، جبکہ 2011 نے 203 ہونے پر اس تعداد میں اضافہ دیکھا اور اس سال اب تک 80 لاشیں برآمد ہوچکی ہیں۔ گنتی کے لحاظ سے قلات ضلع سرفہرست ہے، جہاں ان میں سے 133 کی تعداد میں متاثرین پائے گئے؛ مکران ضلع میں 60 لاشیں برامد ہوئیں اور 102 متاثرین کوئٹہ میں پائے گئے۔ نوٹ: یہ اعداد و شمار صرف گزشتہ 18 ماہ کے ہیں اور اس سے پہلے بھی بہت سے متاثرین تھے، اور ان میں پروفیسر صبا دشتیاری جیسے لوگ اور ہدف بناکر قتل کئے گئے دیگر متاثرین شامل نہیں ہیں۔ کوئی بھی معاہدہ جب تک کہ اسے پابندیوں سے نتھی نہ کیا جائے کارگر ثابت نہیں ہوسکتا، اُن لوگوں کے ہاتھ روکنے کیلئے کہ جنہیں ماضی میں تمام مظالم کیلئے استثنیٰ حاصل رہی ہو۔ فرنٹیئر کور (ایف سی)، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ان کے پٹھووں کہ جنکے مظالم کی غلاظت سے بلوچستان کی سرزمین بھری پڑی ہے، لیکن پھر بھی بلوچ اپنی جدوجہد کیساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔بین الاقوامی معاہدہ برائے تحفظ کل اشخاص از جبراً گمشدگی (آئی سی سی پی ای ڈی) 20 دسمبر، 2006 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے منظور کیا گیا اور 23 دسمبر، 2010 کو اسے نافذالعمل کیا گیا؛ 91 ریاستوں نے اس پر دستخط کئے ہیں اور 32 ممالک نے اسکی توثیق کی ہے یا سے مان لیا ہے۔ حسب توقع، پاکستان ان ممالک میں سے ایک تھا کہ جس نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کیا اور اگر یہ کر بھی لیتا تو بالکل اسی طرح کھل کر اسکی خلاف ورزی کرتا جیسا کہ اس نے تشدد والے معاہدے کا کیا ہے۔ 30 اگست کو ’لاپتہ ہونے والوں کے بین الاقوامی دن‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، جسے پاکستان مزید لوگوں کو غائب کرکے مناتا ہےاس بدھ کو سینیٹ کی انسانی حقوق کی فنکشنل کمیٹی نے لاپتہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد پر ناراضگی کا اظہار کیا اور ایک قرارداد منظور کی جس میں حکومت کوسفارش کی گئی ہے کہ وہ جبری گمشدگی کیخلاف لوگوں کو تحفظ دینے کیلئے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرے۔ سیکرٹری دفاع، نرگس سیٹھی نے سختی سے انٹیلی جنس ایجنسیوں کا دفاع کیا اور کہا کہ پوری دنیا حکومتی ایجنسیوں سے مخاصمت رکھتی ہے، جو کہ ملک کے بہترین مفاد میں کام کر رہی ہیں۔ کوئی کام! انہوں نے سپریم کورٹ کے فرد جرم کا رخ بھی موڑنے کی کوشش کی کہ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں 85 فیصد گمشدگیوں کیلئے ایف سی ذمہ دار ہے، تو انہوں نے یہ کہا کہ ایف سی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔ اس طرح کا بے سر و پا عذرقابل ہنسی ہوتا اگر معاملہ ان سینکڑوں بلوچوں کا نہ ہوتا جنہیں ریاست اغواء اور قتل کررہی ہے۔بلوچ کو 1948ء کے بعد سے ریاست کے ہاتھوں شدید اذیتیں جھیلنا پڑیں لیکن انہوں نے اپنے وقار کوبرقرار رکھا اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی ثابت قدم جرات کا مظاہرہ کیا۔ بلوچ میتوں پر گریہ گری کو کمزوری کی علامت سمجھتے ہیں؛ انٹرنیٹ پر ایک تصویر دیکھی جو میرے شاگردوں محمد خان اور محمد نبی مری کی ماں کی تھی، انکے قبروں پر کھڑی فتح کا نشان دکھارہی تھی۔ جو درد اس نے انکے لاپتہ ہونے کے دوران اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشوں کو دیکھنے کے بعد جھیلا ہوگا، صرف وہی جان سکتی ہے۔ بلوچی میں، مرنے والوں کے نقصان کے دکھ کا اظہار کرنے کیلئے، وہ بجا طور پر کہتے ہیں کہ آگ سب سے زیادہ اسی جگہ کو جلاتی ہے جہاں وہ لگی ہوئی ہو۔میں اس بات کا دعویٰ تو نہیں کرسکتا کہ مجھے ان لوگوں سے زیادہ دکھ ہے جنہوں نے بلوچ کیخلاف جاری اس غلیظ جنگ میں اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے، لیکن مجھے بھی انتہائی گہری چوٹ لگی ہے اور میں بھی بہت غمزدہ ہوں کیونکہ ان مرنے والوں میں سے کئی افراد کومیں اچھی طرح جانتا تھا اور ہم افغانستان میں اپنی طویل جلاوطنی کے دوران ایکدوسرے کیساتھ منسلک تھے۔ کوئی مجھے یہ بتائے گا کہ وہ کس طرح سے اپنے غم اور ازراہِ ہمدردی کا اظہار کرے گا کہ جس نے بیک وقت ریاستی ظلم کے سبب اپنے دو بھائی کھو دیے ہوں؟ کیا مجھے اس سے یہ کہنا چاہیے کہ وہ اسے قسمت کا کیا دھرا مان کر قبول کرلے اور اس سے صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنے کیلئے کہوں؟ اگر میں ایسا کروں، تو کیا اسے یہ نہیں لگے گا کہ استاد نے عمر کے ساتھ ساتھ اپنا ہوش بھی کھو دیا ہے؟ کیونکہ میں نامعلوم لوگوں، اجنبیوں کی بابت بات نہیں کررہا، بلکہ ان افراد کے بارے میں جنہیں میں گوشت پوست کے انسان کے طور پر جانتا تھا، جن میں تعلیم حاصل کرنے کا ایک جذبہ تھا، جو صبر وتحمل کیساتھ کرخت اور سمع خراش زمین پر گھنٹوں بیٹھتے، موسم گرما اور موسم سرما میں، وہ تین روپے سیکھنے کیلئے جو میں نے انہیں سکھایا۔ہر وہ بلوچ جو ریاست کے ظلم کا شکار ہوا، قطع نظر اس حقیقت کے کہ چاہے وزارت داخلہ ، وزارت دفاع یا انکے پٹھو اسکے ذمہ دار تھے، شکریہ ادا کرنے کے مستحق ہیں اور ان کی لگن اور بلوچ جدوجہد کیساتھ ان کا عزم یاد رکھے جائیں، اگر وہ دباو¿ میں آگئے ہوتے یا انہوں نے لالچ کیا ہوتا تو وہ زندہ ہوتے۔ تقریباً 500 بلوچوں میں سے، جنہوں نے حال ہی میں اپنی قوم کو اپنے خون کا قرض ادا کر دیا، ان میں بہت سوں کو میں ذاتی طور پر جانتا تھا۔ لیکن میں خاص طور پر اپنے شاگردوں کا ذکر کرنا چاہوں گا جو لرزہ خیز کی موت مر چکے ہیں، اُن انسانیت کے سفاک دشمنوں کے ہاتھوں جو کسی اخلاقی یا مذہبی معیار کو تسلیم نہیں کرتے اگرچہ ظاہراً وہ یہ سب کچھ اسلام کے اچھے نام پر ہی کرتے ہیں۔ان نوجوانوں، اپنے سابق شاگردوں، جو بلوچ عوام کیلئے آزادی اور پروقار زندگی کیلئے جنگ میں حصہ لیتے ہوئے ہم سے جدا ہوئے، ان کے حوالے سے پہچانے جانے پر میں اپنے آپ کو عزت مند اور مقدم محسوس کرتا ہوں۔ میں انکا نام انکے ذیلی کنبوں سوبدار کے ساتھ لوںگا: واحد بخش، شاہ میر اور احمد مُرغیانی۔ زمان خان اور احمد علی چلگری۔ عرضو، شربت، مراد، اور زمان شیرانی۔ محمد خان اور محمد نبی پیردادانی۔ فیض محمد، ناصر اور وزیر خان مزارانی۔ گلزار تینگیانی اور غلام قادر پیرکانی۔ ڈاکٹر اکبر پیردادانی سمیت بعض لاپتہ ہیں۔ وہ عالی ظرفانہ انداز میں انتقال کرگئے اور بلوچ پر ان کا ایک قرض واجب الادا ہے، جسے صرف بلوچ کیلئے ایک منصفانہ اور اورپُروقار زندگی کیلئے جدوجہد کی صورت ہی میں ادا کیا جاسکتا ہے۔ اپنے شاگرد زمان خان مری کیلئے لکھا گیا میرا تعزیت نامہ:
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2010\09\09\story_9-9-2010_pg7_19
بلوچ کی جانب ظلم میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی، یہاں تک اگر پاکستان بین الاقوامی معاہدہ برائے تحفظ کل اشخاص از جبراً گمشدگی (آئی سی سی پی ای ڈی) پر دستخط ہی کیوں نہ کرلے۔ سفاکیت جاری رہے گی؛ تشدد کیخلاف معاہدہ کی توثیق کے بعد، انہوں نے تشدد اور حراست میں قتل کو بے رحمی سے جاری رکھا ہوا ہے۔ غیرموثر اور بیکار معاہدات ان لوگوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے جو کہ لوگوں کو محکوم بنانے اور زمین کا استحصال کرنے پر تلے ہوئے ہوں۔ ظاہر ہے، دنیا بھی ان معاہدات کو کافی سنجیدگی سے نہیں لیتی، اگر انکے نزدیک یہ کوئی معنی رکھتیں، تو وہاں بلوچستان میں پاکستانی مظالم کیخلاف رد عمل ہوتا۔ اس وقت صرف ایک چیز جو بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور رکھ سکتی ہے، وہ ہے بلوچ کا ان مظالم کیخلاف مزاحمت، لیکن اسے سب کی طرف سے حمایت کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو بلوچ کیخلاف مظالم پر خاموش ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مجرمان جلد یا بہ دیر انکے پیچھے بھی آئیں گے۔

مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
mmatalpur@gmail.com
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز ، اتوار ،یکم جولائی، 2012


Comments

Popular posts from this blog

American expected defeat in Ukraine: a golden opportunity for freedom movements! By Hafeez Hassanabadi

Hafeez Hassanabadi, Translated Articles