Skip to main content





پرخطر آزادی اور پرامن غلامی
mmatalpur@gmail.com
(Malo periculosam libertatem quam quietum servitium)
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
بلوچ کی اپنی ثقافت، زبان اوران کا حب الوطنی اور قوم پرستی کا اپنا ایک تصور ہے اور وہ پاکستانی حب الوطنی اور قوم پرستی کے تصور کو ماننے سے انکاری ہیں لاطینی اقتباس Malo periculosam libertatem quam quietum servitium کا مطلب ہے کہ، ”میں پُرخطر آزادی کو پُرامن غلامی پر ترجیح دیتا ہوں۔“ یہ بلوچ جذبات اور اس عمل کی عکاسی کرتا ہے جو وہ آج کر رہے ہیں؛ صرف ایک سنگدل شخص ہی ان کے اس عمل کو غلط کہے گا کیونکہ 1948 کے بعد سے وہ ریاستی ظلم کے حاصل کنندگان ہیں۔ بلوچ اور پاکستان کے درمیان مسئلے کی شروعات مارچ 1948 میں ہوتی ہے جب قلات کا ابتدائی 227 دنوں کی آزادی کے بعد جبری طور پر الحاق کیا جاتا ہے، ریاست کی جانب سے بلوچ کو مجبور کیا جاتا رہا ہے کہ وہ پاکستانی حب الوطنی، قوم پرستی اور قومی مفادات کے تصورات کو تسلیم کرے۔ اور بلوچ کا اسے تسلیم نہ کرنا اور اسکی تعمیل نہ کرنا، جو کہ نظریہءپاکستان کے طور پر جانا جاتا ہے، متعدد فوجی آپریشن پر منتج ہوئی، لیکن خوش قسمتی سے، وہ ہر بار پہلے زیادہ متحد اور زیادہ پرعزم ہوکر ابھرے۔بلوچ کی اپنی ثقافت، زبان اور ان کا حب الوطنی اور قوم پرستی کا اپنے ایک تصور ہے اور وہ پاکستانی حب الوطنی اور قوم پرستی کے تصور کو ماننے سے انکاری ہیں۔ پاکستانی ریاست کسی جداگانہ حیثیت یا ان کے قائم کردہ تصورات کے منکرین سے متنفر ہے اور اس نیت کے ساتھ کہ بلوچ اسکے حب الوطنی کے نسخے کو قبول کرے، اس نے 1948 ءکے بعد سے بلوچ کیخلاف ایک جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اگرچہ موجودہ آپریشن گزشتہ ہونے والے آپریشنوں کے مقابلے میں زیادہ بد طینت اور طویل ہے، جسے مخفی طور پر فرنٹیئر کور (ایف سی) اور انٹیلی جنس ایجنسیاں کر رہی ہیں؛ 1973 تا77 کا آپریشن یکساں طور پر سفاکانہ تھا لیکن فوج کی طرف سے اسے کھلے عام کیا جارہا تھا۔ سفاکانہ اغواءاور قتل کے جرائم کا موجودہ سلسلہ بھی زیادہ منظم اور وسیع ترپیمانے پر ہے۔لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی حیرت انگیز اور جذبات سے عاری بیان کہ لاپتہ افراد کے معاملے کے پیچھے غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں، بدقسمتی سے ڈاکٹر ارسلان افتخار اور ملک ریاض سے متعلق اسکینڈل کے سبب پربا میڈیا سرکس کے شور میں ڈوب گیا۔ پاکستان میں انصاف مکمل طور پر اندھی نہیں ہے، جہاں کہیں بھی بلوچ کا تعلق ہو،یہ انتخاباً اندھی ہے، اس کی دودھاری تلوار توجیح اور انصاف کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ یہ بلوچ کیخلاف تعصب اور جابرانہ حکومت کی علامت ہے، اور انکے کیخلاف جو حب الوطنی پر مختلف خیالات رکھتے ہوں۔ پاکستان میں تمام اختلاف رائے غدارانہ تصور کی جاتی ہے اور اس کیخلاف کریک ڈاون اس تناسب سے کیا جاتا ہے کہ گویا یہ ریاست کے نظریے اور عقائد کیلئے خطرہ ہوں۔ اس وقت بلوچ، اور ان سے پہلے بنگالی، اسٹابلشمنٹ اور اشرافیہ کے غضب کے صدمے برداشت کرچکی ہیں کیونکہ ان کا اختلاف رائے پاکستانی ریاست کے اس نظریے ، پڑھیے مفادات، کیلئے ایک خطرہ ہے۔منتخبہ اندھا پن اس حقیقت سے واضح ہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال دور افغانستان میں پکتیا اور پلِ چرخی کی جیلوں میں تو قیدیوں کو دیکھ سکتے ہیں لیکن حال ہی میں اغواء اور ہلاک شدہ محمد خان مری، محمد نبی مری، جو بازی پیردادانی کے بیٹے تھے، دونوں افغانستان میں میرے سابق شاگرد رہے تھے، اور مہران بلوچ، جنکا اغواء سی سی ٹی وی کیمرے نے بھی محفوظ کیا تھا، ان کو دیکھنے میں ناکام رہے۔ یہ اس انتہائی درجہ منتخبہ اندھے پن اور بے حسی کی مثالوں میں سے ایک ہے۔ دی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے، جو کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی محفوظ بازیابی کیلئے جدوجہد کررہی ہے، حق بجانب طور پر کمیشن کا بائیکاٹ کیا۔نہ صرف یہ کہ جسٹس اقبال انٹیلی جنس ایجنسیوں کے منتروں کی جھنکار جھنجھنا رہے تھے، بلکہ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے میں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں ملوث ہیں۔ انہوں نے سیکورٹی فورسز کیلئے مزید وسائل اور سہولیات کا مطالبہ کیا۔ متاثرین کے حقوق کی وکالت کے بجائے، وہ قصورواروں کے لئے جبر کی زیادہ سے زیادہ ہتھیاروں کا متقاضی ہے۔ میرا خیال ہے کہ نطشے حق پر تھا جب انہوں نے کہا کہ، ”اگر آپ ایک اتھاہ پاتال میں طویل عرصے تک نظریں گاڑیں، تو پاتال واپس آپ پر نظریں گاڑ دیگا۔جسٹس اقبال نے انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان سے 57 میں سے 12 (ان کے مطابق) لاپتہ افراد کو کمیشن کی طرف سے گزشتہ ہفتے بازیاب کرایا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ”ان میں سے تین لاپتہ افراد، جو گھر واپس لوٹے، انہوں نے درخواست کی ہے کہ انکے نام ظاہر نہ کیے جائیں۔“ انہوں نے طنزاً شکایت کی کہ ” وہ مکمل طور پر چپ ہیں اور کوئی معلومات نہیں دے رہے ہیں اور عدالتیں ثبوت کے بغیر کسی کو سزا نہیں دے سکتیں۔“ واپس لوٹنے والے جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے کچھ کہا تو انہیں اغواء کیا جاسکتا ہے اور اغواء کیا جائے گا اور یہ غیر موثر کمیشن لاچاری سے دیکھتی ہی رہے گی۔ ان کی خاموشی اس کمیشن کے سراسر نکمّے پن کو اجاگر کرتی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ سات لاپتہ افراد، جنکی لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پائی گئی تھیں، اس کیخلاف ایک مقدمہ پی پی سی کی دفعہ 302 کے تحت رجسٹر کی گئی ہے۔ یہ ان کا سب سے بہترین شاٹ ہے۔ گزشتہ 18 ماہ میں تقریباً 500 بلوچوں کے قتل کے حوالے سے کسی ایک شخص پر بھی نہ مقدمہ چلایا گیا ہے اور نہ ہی الزام عائد کیا گیا ہے۔انسٹی ٹیوٹ فار اکانومکس اینڈ پیس کی جانب سے شائع کردہ گلوبل پیس انڈیکس جوکہ مختلف اشاریوں کی کسوٹی پر ملکوں کو پرکھتی ہے ، بشمول منظم اندرونی تنازعات، اندرونی تنازعات کے سبب اموات، سیاسی دہشت گردی، سماج میں تصور کردہ جرائم، پرتشدد مظاہروں وغیرہ کے، اور پاکستان متوقع طور پر 158 ممالک میں سے 149 ویں نمبر پر ہے۔ 2008 میں یہ 138 میں سے 125 پر کھڑا تھا اور گزشتہ سال یہ 153 میں سے 145 پرتھا۔ یہ سیاسی دہشت گردی میں سب سے اوپر ہے، یہاں تک کہ افغانستان کو بھی مات دے دی ہے اور اندرونی تنازعات سے ہونیوالی اموات بیرونی سے دگنی ہوتی ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی دہشت گردی اور اندرونی تنازعات میں بڑھتی ہوئی زبردست رفتار میں اضافہ کےساتھ، اگلے سال یہ یقینا صومالیہ سے اسکی سب سے نیچے والی جگہ چھین لے گی۔جداگانہ حیثیت اور اختلاف رائے پاکستانی ریاست کے لئے نفرت انگیز شے ہیں؛ یہ یکسانیت اور اطاعت کا متقاضی ہے، یہاں تک کہ اسے اگراسکی قیمت 1948 کے بعد سے بلوچستان میں ایک غلیظ جنگ چھیڑنے پر ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ بلوچستان میں جبر کے دورانیے اور شدت نے بلوچ کے اندر موجود صدیوں پرانی آزادی کیلئے محبت اور پروقار زندگی کی خواہش کو فولاد بننے میں مدد دی ہے۔ اب وہ اپنی نجات کو اپنے علیحدہ راستے پر چلنے میں دیکھتے ہیں، اور انہوں نے ”میں پُرخطر آزادی کو پُرامن غلامی پر ترجیح دیتا ہوں“ کو بطور اپنا نعرہ اور مقصد کے طور پر اپنایا ہوا ہے۔ماضی میں ’پہاڑوں میں‘ رہنے والوں میں سے ایک ہونے کا اعزاز رکھنے اور مستفید ہونے سے مجھے معلوم ہے کہ آج پہاڑوں میں رہنے والے وہ لوگ اپنے آپ پر پورا یقین رکھتے ہیں اور آخر کار وہ اس خواب کی تعبیر کریں گے جو انکی قسمت نے دیکھا تھا۔ آئی ایف اسٹون(1907 تا 1989) نے ان کے جذبات کا شاندار اظہار کیا ہے: ”صرف لڑائی کی وہی قسم لڑنے کے قابل ہے جسے آپ ہار جائیں، کیونکہ کسی نہ کسی کو.... تو یہ لڑنی ہی ہیں اور ہارنی اور ہارنی ہیں اور یہاں تک کہ کسی دن ، کوئی ایک جسے اتنا ہی یقین ہو کہ جتنا آپ کو ہے، جیت لے۔ کسی کو آج سے ایک سو سال بعد ایک اہم اور بڑی لڑائی جیتنے کیلئے ضروری ہے کہ اور بہت سارے لوگ لڑنے کو تیار ہوں، محض اسکا مزہ لینے اور اس سے لطف اندوز ہونے کیلئے آگے بڑھیں اور لڑیں، یہ جانتے ہوئے کہ آپ ہار جائیں گے۔ آپکو ایک شہید کی طرح محسوس نہیں کرنا چاہئے۔ آپکو اس سے لطف اٹھانے چاہیے۔“پاکستان کی بلوچ حقوق کو کم کرنے اور انکے وسائل پر قبضے کی کوشش نے، بلوچ کیلئے اور کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے ماسوائے اسکے کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں یہاں تک کہ کسی دن، کوئی ایک جو ان کی طرح یقین رکھتا ہو، جیت جائے۔ بلوچ کی اپنی قسمت پر یقین نہ متزلزل ہوئی ہے اور نہ متزلزل ہوگی اورپروقار زندگی کیلئے ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔

مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز ، اتوار ،17جون، 2012






Comments

Popular posts from this blog

American expected defeat in Ukraine: a golden opportunity for freedom movements! By Hafeez Hassanabadi

Hafeez Hassanabadi, Translated Articles