Skip to main content



طاقت پر اجارہ داری کو چیلنج
تبصرہ ۔۔ میر محمد علی ٹالپُر
ترجمہ: لطیف بلیدی
بلوچستان میں مخالف قوتوں کے درمیان طاقت کے توازن میں وسیع فرق کی وجہ سے موجودہ تنازعہ بنیادی طور پر طاقت کو کمزور کرنے کی جنگ ہے اور یہ کچھ اور ہو ہی نہیں سکتی جب بھی ریاست کی طرف سے بلوچستان کے مصائب کا عوامی سطح پر بگل بجایا جاتا ہے تو بلوچ عوام مظالم اور جبر میں شدت آنے کی توقع کرتے ہیں کیونکہ ریاست تمام مسائل کے ’حل‘ کیلئے صرف اور صرف جبر پر انحصار کرتی ہے۔ سویلین حکومتیں ہمیشہ فوج کے ایجنڈے پر دوسرے چوتارے کا کردار ادا کرتی آئی ہیں اور بلوچستان میں مفادات کی موجودہ موج زنی میں اضافے نے واضح طور پر ’سیکورٹی اسٹیٹ‘ کو مضبوط بنانے کے حق میں جھکاو کا اظہار کیا ہے۔ ان کے کوئٹہ کے دورے پر، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی بلوچستان کیلئے فخریہ انداز سے بیان کیے گئے کارناموں میں ایک لنگڑے لولہے این ایف سی ایوارڈ، ایک معذور آغازِ حقوق پروگرام اور اورماڑہ میں بحریہ اکیڈمی کا ایک منحوس افتتاح شامل تھے۔ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بحریہ کی اکیڈمیاں اور کیڈٹ کالجیں تعلیمی ادارے نہیں ہیں بلکہ سیکورٹی ریاست کو مستحکم کرنےکے اوزار ہیں اور بلوچستان میں ان کی بھرمار عسکریت کو بڑھاوادینے اور بلوچ حقوق کے مطالبات کی ناکامی کو یقینی بنانے کیلئے ہیں۔   فرنٹیئر کور بلوچستان کے انسپکٹر جنرل نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ، ”سال 2006 تا 07 کے فوجی آپریشن میں، عسکریت پسندوں کے کیمپوں کا خاتمہ کیا گیا تھا لیکن 2008 ءکے انتخابات کے بعد ایک سیاسی حکومت آئی، فوج کو واپس بلالیا گیا اور چند چھاونیوں کو غیرفعال کردیا گیاجس سے عسکریت پسندوں کو تنظیم نومیں مدد ملی۔“ اسکے بالکل برعکس سچائی یہ ہے کہ کیمپوں کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا ہے؛ مزید برآں، اس سیاسی حکومت نے اپنے قیام میں آنے کے ساتھ ہی منصوبہ بندی کرنے، اسے آگے بڑھانے اور بلوچستان میں مظالم کی بدترین شکلوں کا ارتکاب کرنے میں فوج کی مدد کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بلوچستان کیلئے حل فوجی آپریشن ہی ہیں اور دھمکی دیتے ہیں کہ، ” ان عناصر کے خلاف جیسے کو تیسے والی کارروائیاں کی جائیں گی جو پاکستان کو توڑنے پر تلی ہوئی ہیں۔“
قیاساً وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جبری طور پر ’اغواءاور مارپھینکنا‘ جیسے کو تیسے والی پالیسی سے قدرے مختلف ہے۔ پھر اپنے منظم اغواءاور مارنے کی پالیسی کی تائید میں دلائل پیش کرتے، انہوں نے عدالتی نظام پر کم سزا دہی کی شرح کے حوالے سے شدید مایوسی کا اظہار کیا۔ ریاست غلطی سے یہ آس لگائے بیٹھی ہے، جسکے خیال میں اگر لوگوں کےخلاف منظم طریقے سے کافی مظالم ڈھائے جائیں تو غیر ملکی مالی تعاون سے چلنے والے چند سو باغیوں کا جلد ہی صفایا کردیا جائے گا۔
آئی جی نے یہ بھی کہا ہے کہ فراری، یعنی بلوچ باغی، بلوچستان میں 121 کیمپ کو چلارہے ہیں جنکی تقسیم کچھ اس طرح سے ہے ۔ بلوچ لبریشن آرمی کے 40 کیمپ، بلوچ ریپبلکن آرمی کے 26 ، بلوچ لبریشن فرنٹ کے 19 اور دیگر 30 کیمپ افغانستان میں ہیں۔ باغیوں کے کیے گئے حملوں پر وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف 2012 میں، بلوچستان میں 575 تخریبی حملے ہوئے ہیں۔ ان میں سے 258 حملوں کی ذمہ داری کا دعویٰ بلوچ باغیوں کی طرف سے کیا گیا اور ایف سی کے 57 فوجیوں ، فوج کے دو فوجیوں اور 20 پولیس اہلکاروں سمیت کُل254 افراد ہلاک ہو ئے۔
لوگوں کی فعال اور وسیع پیمانے پر حمایت کے بغیر، گوریلے زندہ نہیں رہ سکتے اور بلوچستان بھر میں گوریلا کیمپوں کی اتنی بڑی تعداد کا وجود بلاشبہ ممکن ہی نہیں ہو گا؛ بیشک، گوریلے مچھلیاں ہیں اور عوام سمندر۔ 1973 کی شورش کے دوران لوگوں نے فوج کو کبھی بھی گوریلا کیمپوں، ٹھکانوں یا نقل و حرکت کی ہوا تک لگنے نہیں دی۔ انہوں دل کھول کر رسد بہم تقسیم کی اور اب بھی کررہے ہیں؛ مایوس فوج نے تب اپنا غصہ لوگوں پر اتارا تھا اور اب بھی اسی طرح اتار رہی ہے۔
فوج اور ایف سی کی خواہش اور تقاضہ بلوچستان میں طاقت کے استعمال پر ایک اجارہ داری قائم کرنا ہے جوکہ بطور ہتھیار سزا کی پالیسی کے تحت اپنے طاقت کے خصوصی استعمال کے حق پر کسی مخالفت کو برداشت نہیں کرتی۔ ابتداء میں بلوچ نے بے ساختگی سے اس اجارہ داری کو چیلنج کیا لیکن اب باقاعدہ اور منظم مخالفت سیاسی شعور کے قوی عنصر کے ساتھ مل کر ایسی مساوات میں داخل ہوچکی ہے کہ جس نے ریاست کو اس قدر خوفزدہ کردیا ہے کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھوچکی ہے، اور اسی وجہ سے، اس نے بلوچ کےخلاف بے قابو دہشت گردی کو بے مہار چھوڑدیا ہے۔
طاقت پر اجارہ داری کے ساتھ ریاست زمین پر قبضہ اور اسے تباہ ، اپنے تمام تصور کردہ دشمنوں کو اغواء اور انکا خاتمہ اور وہ یہ سب کچھ بلا کسی روک ٹوک اور سزا سے مستثنیٰ ہوکر کرنا چاہتی ہے۔ ریاست طاقت کے استعمال کے حوالے سے اپنی اجارہ داری پر کسی چیلنج کو برداشت نہیں کرتی، اگرچہ وہ اکثر اسے اپنے ’اسٹریٹجک اثاثوں‘ اور پسندیدہ شہری گروہوں کے ساتھ بانٹتی رہتی ہے۔ اب اسکا سامنا بلوچ سے ہے جو کہ یہ بات سمجھ چکی ہے کہ جب تک یہ اجارہ داری ختم نہیں ہوجاتی، ان کی زندگی اور حقوق ہمیشہ خطرے میں پڑے رہیں گے۔ یہ لوگوں میں عمومی طور پر اس احساس کے ظہور کی وجہ ہے کہ جس سے مچھلی آزادی سے محبت کرنے والے بلوچ کے سمندر میں محفوظ طریقے سے زندہ رہ سکتی ہے۔
سیکورٹی اسٹیٹ کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ کسی طرح وہ طاقت پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھے اور لوگوں کو اطاعت گزاری کیلئے مرعوب کرے تاکہ اسٹابلشمنٹ کے استحصال کے ایجنڈے کو لاگو کیا جا سکے ، اشرافیہ اور ان کے مختارِ کُل کارندے آزادانہ لوٹ کھسوٹ کرسکیں۔ طاقت کی اس اجارہ داری پر بلوچ کے چیلنج سے اسٹابلشمنٹ کا منصوبہ خطرے میں پڑ گیا ہے؛ لہٰذا فوج اور ایف سی اپنی اجارہ داری بحال کرنے کیلئے بلوچ کےخلاف کھل کر سامنے آچکے ہیں، لیکن وہ نہ صرف اپنی کوششوں میں ناکام رہے ہیں بلکہ زمین بھی کھو چکے ہیں اور اسی لئے بلوچ کےخلاف ظالمانہ اور غیر انسانی ہتھکنڈوں کا سہارا لے رہے ہیں۔
بلوچستان میں مخالف قوتوں کے درمیان طاقت کے توازن میں وسیع فرق کی وجہ سے موجودہ تنازعہ بنیادی طور پر طاقت کو کمزور کرنے کی جنگ ہے اور یہ کچھ اور ہو ہی نہیں سکتی۔ پاکستانی فوج کو ایک ایسے ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے جوکہ بلوچستان سے مزید وسائل حاصل کرنے پر تلی ہوئی ہے، اپنی ’سیکورٹی ریاست‘ کی حیثیت کو آگے بڑھانے اور علاقے میں ایک اہم کردار ادا کرنے کیلئے ، جو کہ درحقیقت اسکے ذرائع اور بس سے باہر کی چیزیں ہیں ۔ دوسری طرف بلوچ گوریلا ہے جو کہ کم سے کم ہتھیاروں اور وسائل اور عوامی حمایت کے ساتھ اپنے لوگوں کے حقوق کیلئے لڑ رہا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک آج کے دور میں مخالفین کی طاقت میں بہت زیادہ فرق کی وجہ سے بظاہر اس تنازعے کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہے، لیکن بلوچ کی اکثریت کا خیال مختلف ہے۔
ایک خبطی ذہنیت، گھمنڈ اور اس کے دنیا کیلئے اپنی قدرو قیمت کے غلط اندازے میں مبتلا پاکستان، اگرچہ بظاہر مضبوط ہے، مگر اتنا مظبوط نہیں ہے جتنا کہ ایک دہائی قبل تھا؛ اب یہ اندرونی تنازعات اور خود پیدا کردہ بیرونی مسائل کے سبب شکستہ ہوچکی ہے۔ بلوچ آج سب سے زیادہ متحد ہیں اور وہاں نہ صرف بلوچ معاشرے کے پورے طول و عرض میں بلکہ علاقے وار بھی اس سے قبل جنگجووں کیلئے اتنی زیادہ حمایت کبھی نہیں پائی گئی۔ انہوں نے ماضی میں کی گئی متعدد فوجی کارروائیوں کے تلخ تجربوں سے سبق سیکھا ہے اور تبدیل شدہ حالات کے مطابق اچھی طرح ڈھل چکے ہیں۔ یہاں اور بیرون ملک کے کارکنوں کیلئے بین الاقوامی فورموں اور میڈیا کا ایک بہتر استعمال موجود ہے۔ ان کے لئے بین الاقوامی حمایت توقع سے زیادہ تیزتر حقیقت میں تبدیل ہورہی ہے، تاہم ان 20 غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے نہیں جنکا آئی جی نے ذکر کیا، بلکہ ان ممالک کی طرف سے جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں اور جو پاکستان کی اس کے اپنے اسٹریٹجک اثاثوں کی حمایت پر فکر مند ہیں جنہیں دنیا اور خطے میں قیام امن کیلئے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ ٹیبل آہستہ آہستہ مگر یقینا بلوچ کے حق میں پلٹ رہی ہیں۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز ، اتوار ،10جون، 2012



Comments

Popular posts from this blog

American expected defeat in Ukraine: a golden opportunity for freedom movements! By Hafeez Hassanabadi

Hafeez Hassanabadi, Translated Articles